میری بھتیجی کو اس کے شوہر نے ایک وقت پر تین طلاقیں دے دی تھیں، تحریری اور زبانی طور پر۔ اب لڑکا تین سال بعد کہتا ہے کہ میں نے ایک طلاق دی ہے؛ کیوں کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک طلاق ہوتی ہے۔ براہِ مہربانی فقہ حنفی کی روشنی میں اس مسئلہ کے بارے میں رہنمائی فرمائیں!
قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ ( یعنی حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کے متفقہ فتوی کی رو سے ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں، جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ہیں ان کا قول قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ کے متفقہ فتوی کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار ہے۔
لہٰذا آپ کی بھتیجی کو اگر اس کے شوہر نے ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے دی ہیں تو اس کی وجہ سے آپ کی بھتیجی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، دونوں کے درمیان نکاح ختم ہوچکا ہے، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، اب نہ تو رجوع کرنا جائز ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہنا جائز ہے، آپ کی بھتیجی عدت گزارنے کے بعد کسی بھی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی، دوسری جگہ نکاح کرنے کی صورت میں اگر ازدواجی تعلق قائم ہونے کے بعد دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ طلاق دے دے تو اس دوسرے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد دوبارہ پہلے شوہر سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے تقرر کے ساتھ دوبارہ نکاح کی اجازت ہوگی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 233):
"و ذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."
شرح النووي على مسلم (1/474، قدیمی):
"وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِيمَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ: أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا، فَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَ مَالِكٌ وَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَحْمَدُ وَجَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ مِنَ السَّلَفِ وَ الْخَلَفِ: يَقَعُ الثَّلَاثُ."
تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144212201309
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن