ایک شخص جس کی قربانی کرنے کی گنجائش تقریبا تین ساڑھے تین لاکھ روپے تھی، اس نے ایک بڑا جانور اپنی استعداد سے بڑھ کر ساڑھے پانچ لاکھ روپے کا اپنے جاننے والے سے خریدا اور بیچنے والے سے یہ طے ہوا کہ ساڑھے تین لاکھ روپے ابھی دوں گا اور باقی پیسےآٹھ مہینے کے بعد دوں گا، پھر وہ جانور گھر پر لے آیا اور دو چار دن میں وہ جانور اتنا شدید بیمار ہوا کہ اس نے جانور کو واپس اسی بائع کو دے دیا جس سے خریدا تھا اور بیچنے والے نے وہ جانور واپس بھی لے لیا، لیکن پھر وہ جانور بائع کے پاس آدھے دن میں مر گیا، اب جس نے خریدا تھا وہ یہ کہہ رہا ہے کہ اب مجھےآدھے پیسے بیچنے والے کو مروت میں دینے پڑیں گے، تو کیا اس کے ذمہ بیچنے والے کو پیسے دینا لازم ہے؟ (لیکن پیسے دینے کے بعد اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا)اور کیایہ شخص دوسرے جانور کی قربانی کرے گا ؟اگر کرے گا تو کتنی رقم والے جانور کی قربانی کرے گا ؟ ساڑھے پانچ لاکھ یا ساڑھے تین لاکھ یا اس کو اختیار ہے؟
واضح رہے کہ اگر کسی مال دار (غنی) صاحبِ نصاب شخص نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا پھر وہ جانور بیمار ہوگیا تو دیکھا جائے گا کہ اگر بیماری کی وجہ سے جانور ایسا عیب دار ہوجائے جس کی قربانی نہیں ہوسکتی تو صاحبِ نصاب آدمی پر ضروری ہوگا کہ وہ عیب دار جانور کی جگہ پر کسی دوسرے جانور کی قربانی کرے، لیکن اگر جانور بیماری کی وجہ سے عیب دار نہ ہوا ہو اور اس کی قربانی کرنا جائز ہو تو اس صورت میں اس جانور کی جگہ دوسرا جانور کی قربانی کرنا ضروری نہیں ہوگا، دونوں صورتوں میں پہلے جانور کو بیچ کر دوسرا جانور خریدنا جائز توہے، لیکن بلا ضرورت (یعنی دوسری صورت میں) قربانی کی نیت سے خریدے گئے جانور کو بیچنا مناسب نہیں ہے ، بہرحال دونوں صورتوں میں دوسرا جانور خریدتے وقت اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ وہ پہلے جانور سے کم قیمت والا نہ ہو، اگر دوسرا جانور پہلے کی قیمت سے کم قیمت میں خرید لیا تو دونوں جانوروں کی قیمت کے فرق کے بقدر رقم صدقہ کرنی پڑے گی۔
اور اگر کسی غریب (جس پر صاحب نصاب نہ ہونے کی وجہ سے قربانی واجب نہ ہو) نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا اور پھر قربانی سے پہلے وہ جانور بیمار ہوگیا تو اس غریب شخص پر چوں کہ قربانی کا یہ جانور خریدنے کی وجہ سے اس جانور کی قربانی لازم اور واجب ہوئی ہے؛ اس لیے اس شخص کے حق میں یہی جانور قربانی کرنے کے لیے متعین ہے، لہٰذا اس غریب شخص کے لیے اس جانور کو فروخت کر نا جائز ہی نہیں ہے، بلکہ چاہے یہ جانور بیماری کی وجہ سے عیب دار بھی ہوجائے، تب بھی اس شخص پر اسی جانور کی قربانی کرنا لازم ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب اس شخص نے وہ جانور واپس کردیا اور بیچنے والے نے رضامندی نے اسے قبول کرلیا اور اس شخص کے پیسے (ساڑھے تین لاکھ) واپس دے دیے تو اب اس کے ذمہ جانور کے مالک کو کوئی رقم دینالازم نہیں ہے، البتہ اگر وہ مروۃً بیچنے والے کو کچھ پیسے دے گا تو وہ اس کی طرف سےتبرع اور احسان ہوگا، چوں کہ یہ صاحب نصاب ہے تو اس کے ذمہ تقریبا ساڑھے پانچ لاکھ کے جانور کی قربانی کرنا لازمی ہے؛ کیوں کہ مالدار صاحب نصاب کے حق میں خریدے ہوئے جانور کی مالیت متعین ہوجاتی ہے اور اگر اس سے کم رقم کے جانور کی قربانی کرتاہے، تو ساڑھے پانچ لاکھ تک کی بقیہ رقم پر صدقہ کرنا واجب ہوگا، ہاں، اگر اس کے پاس ساڑھے تین لاکھ سے زائد رقم نہیں ہے تو ساڑھے تین لاکھ کے جانور کی قربانی کرنے کی گنجائش ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ضلت أو سرقت فاشترى أخرى ثم وجدها فالأفضل ذبحهما، وإن ذبح الأولى جاز، وكذا الثانية لو قيمتها كالأولى أو أكثر، وإن أقل ضمن الزائد ويتصدق به بلا فرق بين غني وفقير، وقال بعضهم: إن وجبت عن يسار فكذا الجواب، وإن عن إعسار ذبحهما ينابيع"......................(ولو) (اشتراها سليمة ثم تعيبت بعيب مانع) كما مر (فعليه إقامة غيرها مقامها إن) كان (غنيا، وإن) كان (فقيرا أجزأه ذلك) وكذا لو كانت معيبة وقت الشراء لعدم وجوبها عليه بخلاف الغني، ولا يضر تعيبها من اضطرابها عند الذبح وكذا لو ماتت فعلى الغني غيرها لا الفقير، ولو ضلت أو سرقت فشرى أخرى فظهرت فعلى الغني إحداهما وعلى الفقير كلاهما شمني.
(قوله فعلى الغني غيرها لا الفقير) أي ولو كانت الميتة منذورة بعينها لما في البدائع أن المنذورة لو هلكت أو ضاعت تسقط التضحية بسبب النذر، غير أنه إن كان موسرا تلزمه أخرى بإيجاب الشرع ابتداء لا بالنذر،
(قوله ولو ضلت أو سرقت إلخ) مستدرك بما قدمه في الفروع على ما في أغلب النسخ (قوله فظهرت) أي في أيام النحر زيلعي، وقدمنا مفهومه عن البدائع (قوله فعلى الغني إحداهما) أي على التفصيل المار، من أنه لو ضحى بالأولى أجزأه ولا يلزمه شيء ولو قيمتها أقل، وإن ضحى بالثانية وقيمتها أقل تصدق بالزائد. قال في البدائع إلا إذا ضحى بالأولى أيضا فتسقط الصدقة لأنه أدى الأصل في وقته فيسقط الخلف (قوله شمني) ومثله في التبيين، وتمامه فيه".
"(قوله لوجوبها في الذمة فلا تتعين) والجواب أن المشتراة للأضحية متعينة للقربة إلى أن يقام غيرها مقامها فلا يحل له الانتفاع بها ما دامت متعينة ولهذا لا يحل له لحمها إذا ذبحها قبل وقتها بدائع، ويأتي قريبا أنه يكره أن يبدل بها غيرها فيفيد التعين أيضا".
(كتاب الأضحية، ج:6، ص:323/325/329، ط: سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو باع الأضحية جاز خلافا لأبي يوسف- رحمه الله تعالى -، ويشتري بقيمتها أخرى ويتصدق بفضل ما بين القيمتين".
(كتاب الأضحية، الباب السادس في بيان ما يستحب في الأضحية والانتفاع بها، ج:5، ص:294، ط: دار الفكر)
وفیہ أیضاً:
"رجل اشترى شاة للأضحية وأوجبها بلسانه، ثم اشترى أخرى جاز له بيع الأولى في قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى -، وإن كانت الثانية شرا من الأولى وذبح الثانية فإنه يتصدق بفضل ما بين القيمتين؛ لأنه لما أوجب الأولى بلسانه فقد جعل مقدار مالية الأولى لله تعالى فلا يكون له أن يستفضل لنفسه شيئا، ولهذا يلزمه التصدق بالفضل قال بعض مشايخنا: هذا إذا كان الرجل فقيرا فإن كان غنيا فليس عليه أن يتصدق بفضل القيمة، قال الإمام شمس الأئمة السرخسي الصحيح أن الجواب فيهما على السواء يلزمه التصدق بالفضل غنيا كان أو فقيرا؛ لأن الأضحية وإن كانت واجبة على الغني في الذمة فإنما يتعين المحل بتعيينه فتعين هذا المحل بقدر المالية لأن التعيين يفيد في ذلك"
(كتاب الأضحية، الباب الثاني في وجوب الأضحية بالنذر وما هو في معناه، ج:5، ص:294، ط: دار الفكر)
وفیہ أیضا:
"لو قال المشتري تركت البيع وقال البائع رضيت أو أجزت يكون إقالة كذا في الخلاصة".
(كتاب البيوع، الباب الثالث عشر في الإقالة، ج:3، ص:157، ط: دار الفكر)
العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:
"المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره"
(كتاب المداينات، ج:2، ص:226، ط: دار المعرفة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144512100003
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن