بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مسجد سے اضافی مصحف دوسری مسجد میں دینے کا حکم


سوال

بعض مساجد میں وقف کردہ مصاحف  زیادہ ہوتے ہیں   جب کہ  اس مسجد میں نمازی بہت قلیل ہوتے ہیں،  ایسی حالت میں رکھے ہوئے مصاحف خراب ہو رہے ہیں، اور قریب میں تھوڑے فاصلے  پر ایک بڑی مسجد ہے  وہاں نمازی زیادہ ہیں اور مصحف بھی کم ہیں ،تو کیا پہلی مسجد سے زائد مصاحف دوسری مسجد میں دینا جائز ہے یا نہیں؟ حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں ایک مسجد کے لیے وقف کردہ مصاحف دوسری مسجد میں دینا جائز ہے ،بشرطیکہ  اس چھوٹی مسجد میں ضائع  ہورہے ہو ں  اور بڑی مسجد میں ضرورت ہو ، نیز  یہ  کہ اس چھوٹی مسجد کے لوگ  دینے پر راضی بھی ہوں، اور اگر اس چھوٹی مسجد  کے لوگ  دینے پر راضی نہ  ہوں  یایہ  مصاحف ضرورت سے زائد  نہ ہوں  تو  پھر دیناجائز نہیں ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے: 

"ثم وقف المصحف إذا وقفه على أهل المسجد يقرءونه إن يحصون يجوز وإن وقف على المسجد يجوز أن يقرأ في هذا المسجد وذكر في بعض المواضع لا يكون مقصورا على هذا المسجد كذا في الوجيز للكردري."

(الفتاوى العالمكيرية،كتاب الوقف، الباب الثاني فيما يجوز وقفه وما لا يجوز وفي وقف المشاع، 2/ 361، دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے: 

"وفي الدرر وقف مصحفا على أهل مسجد للقراءة إن يحصون جاز وإن وقف على المسجد جاز ويقرأ فيه، ولا يكون محصورا على هذا المسجد وبه عرف حكم نقل كتب الأوقاف من محلها للانتفاع بها والفقهاء بذلك مبتلون فإن وقفها على مستحقي وقفه لم يجز نقلها ...

(قوله: وإن وقف على المسجد جاز) ظاهره أنه لا يشترط فيه كون أهله ممن يحصون؛ لأن الوقف على المسجد لا على أهله كما هو المتبادر من المقابلة، ولعل وجهه أنه يصير كالتنصيص على التأبيد بمنزلة الوقف على عمارة مسجد معين فإنه يصح في المختار لتأبده مسجدا كما قدمناه عند قوله ويجعل آخره لجهة قربة (قوله: ولا يكون محصورا على هذا المسجد) هذا ذكر في الخلاصة بقوله وفي موضع آخر ولا يكون إلخ أي وذكر في كتاب آخر فهو قول آخر مقابل لقوله: ويقرأ فيه، فإن ظاهره أنه يكون مقصورا على ذلك المسجد وهذا هو الظاهر حيث كان الواقف عين ذلك المسجد، فما فعله صاحب الدر حيث نقل العبارة عن الخلاصة، وأسقط منها قوله وفي موضع آخر غير مناسب لإيهامه أنه من تتمة ما قبله إلا أن يكون قد فهم أن قوله: ويقرأ فيه محمول على الأولوية فيكون ما في موضع آخر غير مخالف له تأمل، لكن في القنية: سبل مصحفا في مسجد بعينه للقراءة ليس له بعد ذلك أن يدفعه إلى آخر من غير أهل تلك المحلة للقراءة."

(حاشية ابن عابدين، كتاب الوقف، مطلب في وقف المنقول قصدا، 4/ 365، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510102215

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں