میرے بہنوئی کا انتقال ہوا، انہوں نے اپنی زندگی میں میری ہمشیرہ سے کچھ زیورات (بطورِ قرض)یہ کہہ کر لیے تھے کہ ہمارے مکان پر کچھ مقدمات چل رہے ہیں، جس کی فیس وغیرہ کی ادائیگی کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں، لہذا آپ ہمیں اپنے زیورات بطورِ قرض دے دیں، ہم بعد میں آپ کو اتنے ہی سونے کے زیور یا اس کی قیمت دے دیں گے۔
بعد ازاں بہنوئی کی زندگی میں ہمشیرہ کو زیوات کی دس فیصد قیمت دے دی گئی تھی، اب ان کے انتقال کے بعد ان کے ایک بھائی اور تین بہنیں یہ کہہ رہے ہیں کہ اس قرض کی ادائیگی ہمارے ذمہ نہیں ہے، ہم نہیں دیں گے، جبکہ یہ قرض جس مکان کے لیے لیا تھا وہ سب بھائی بہنوں کے مشترکہ مکان تھا، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہم بہنوئی کے بھائی بہنوں سے مذکورہ زیورات کی قیمت کا مطالبہ کرسکتے ہیں یانہیں؟
قرآن و سنت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔
وضاحت:میرے بہنوئی نے اپنی والدہ اور بہن بھائی کے کہنے پر اپنی بیوی(یعنی میری ہمشیرہ) سے مذکورہ زیورات بطورِ قرض لے کر مشترکہ مکان(جو ان کے والد کا متروکہ مکان تھا) کے مقدمات میں خرچ کیے تھے اور قرض لیتے وقت بہن بھائیوں نے کہا تھا کہ ہم سب مل کر یہ قرض چکائیں گے، اور اب وہ مکان ورثاء کے درمیان تقسیم بھی ہوچکاہے۔
نیز ان زیورات کی دس فیصد قیمت جو ادا کی گئی ہے وہ میرے بہنوئی کے بھائی نے ادا کی تھی۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ زیورات جب مشترکہ مکان کے مسائل حل کرنے کے لیے تھے، تو بہنوئی کے انتقال کے باوجود زیورات کا بقیہ نوے فیصد یا اس کی موجودہ ویلیو کے اعتبار سے جو بھی قیمت بنتی ہے، اس کی ادائیگی، اس مکان کے تمام شرکاء/حصہ دار (یعنی آپ کے بہنوئی اور ان کے سب بھائی بہنوں) پر ان کے حصصِ شرعیہ کے تناسب سے لازم ہے، لہذا شرعی لحاظ سے سائل کی ہمشیرہ اپنے شوہر کے بھائی بہنوں سے ان کے حصے کے بقدر قرض/رقم کا مطالبہ کرسکتی ہے۔
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:
"المادة (١٣٠٨)(إذا احتاج الملك المشترك للتعمير والترميم فيعمره أصحابه بالاشتراك بنسبة حصصهم)... الخ
الخلاصة: إن نفقات الأموال المشتركة تعود على الشركاء بنسبة حصصهم في تلك الأموال حيث إن الغرم بالغنم."
(الكتاب العاشر:الشركات، الباب الخامس في بيان النفقات المشتركة، الفصل الأول في بيان تعمير الأموال المشتركة وبعض مصروفاتها الأخرى، ج:3، ص:310، ط: دار الجيل)
فيه أيضاً:
"المادة (1309) - (إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك بإذن الآخر وصرف من ماله قدرا معروفا فله الرجوع على شريكه بحصته...
إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك ففي ذلك احتمالات أربعة:الاحتمال الأول - أن يكون المعمر صرف بإذن وأمر الشريك الآخر من ماله قدرا معروفا وعمر الملك المشترك للشركة أو أنشأه مجددا فيكون قسم من التعميرات الواقعة أو البناء ملكا للشريك الآمر ولو لم يشترط الشريك الآمر الرجوع على نفسه بالمصرف بقوله: اصرف وأنا أدفع لك حصتي من المصرف. وللشريك المأمور الذي عمر الرجوع على شريكه بحصته أي بقدر ما أصاب حصته من المصرف بقدر المعروف يعني إذا كان الملك مناصفة فيأخذ منه نصف المصرف وإذا كان مشتركا بوجه آخر فيأخذ المصرف على تلك النسبة."
(الكتاب العاشر:الشركات، الباب الخامس في بيان النفقات المشتركة، الفصل الأول في بيان تعمير الأموال المشتركة وبعض مصروفاتها الأخرى، ج:3، ص:310، ج:3، ص:314، ط:دارالجيل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607101859
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن