میرا سوال یہ ہے کہ کیا اگر ایک بندہ یہ بات کہے کہ میں ائمہ اربعہ میں سے کسی کو نہیں مانتا، بس قرآن وحدیث میں جو لکھا ہے، میں وہی مانوں گا۔ تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ اور اگر ضروری ہے تو کیوں ضروری ہے؟
واضح رہے کہ ائمہ اربعہ نے جتنے بھی مسائل بیان کیے ہیں، وہ سب قرآن وسنت کی روشنی میں بیان کیے ہیں، لہذا ائمہ اربعہ میں کسی ایک کو ماننا درحقیقت قرآن وسنت کو ہی ماننا ہے۔عام آدمی(غیر مجتہد) کے لیے مجتہد کی تقلید کرنا واجب ہے۔ لہذا اس طرح کہنا کہ میں ائمہ اربعہ میں کسی کو نہیں مانتا، بس قرآن وحدیث میں جو لکھا ہے وہی مانوں گا، تو یہ شخص اگر مجتہد ہے تو یہ بات کہہ سکتا ہے، تاہم فی الحال اس زمانہ میں کوئی بھی مجتہد مطلق نہیں ہے۔اور اگر یہ شخص مجتہد نہیں تو قرآن وحدیث کو صحیح سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے مجتہد کی تقلید کا محتاج ہے۔ اور اس زمانے میں ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک تقلید ضروری ہے، اس لیے وہ سب مجتہد تھے اور ان کے مذاہب ہی مدون ہوئے، دیگر مجتہدین کے مذاہب کی تدوین نہیں ہوئی ۔ اس لیے اس زمانہ میں ان میں کسی ایک کی تقلید پر امت کا اجماع ہے۔ لہذا مذکورہ بات کہنا درست نہیں، نیز ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک تقلید کیے بغیر خود سے قرآن وحدیث سے مسائل مستنبط کرکے ان پر عمل کرنا بھی درست نہیں۔
اسی مضمون کی تفصیل کے لیے فتاوی محمودیہ کا فتویٰ ملاحظہ ہو!
”سوال:- تقلید شخصی واجب ہے یا فرض،نیز تقلید کرنے کیلئے اقوال نبوی ہیں یا نہیں؟
الجواب حامداً ومصلیاً!
تقلید شخصی واجب ہے، کیونکہ احکام شرعیہ دو قسم پر ہیںِ اول منصوص دوم غیر منصوص، پھر منصوص دونوع پر ہیں، اول متعارض دوم غیر متعارض، پھر تعارض کی دو صورتیں ہیں، اول معلوم التقدیم والتاخیر دوم غیر معلوم التقدیم والتاخیر۔
پس احکام منصوصہ غیر متعارضہ معلوم التقدیم و التاخیر میں تو کوئی اشکال نہیں اور نہ ہی ان میں تقلید کی ضرورت،لیکن احکام غیر منصوصہ اور منصوصہ متعارضہ غیر معلوم التقدیم والتاخیر میں تقلید کی ضرورت ہے، اور بجز تقلید کوئی چارۂ کار نہیں، کیونکہ یہ دوحال سے خالی نہیں، یا ان پر کچھ عمل نہ کرے گا یا کچھ کریگا، اگر کچھ نہ کیا تو نص ’’اَیَحْسَبُ الاِنْسَانُ اَنْ یُتُرَکَ سُدَیً‘‘ اور ’’اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنَا کُمْ عَبَثًا‘کی مخالفت لازم آئے گی، اگر کچھ عمل کیا تو احکام غیر منصوصہ میں بلا علم اور منصوصہ متعارضہ غیر معلوم التقدیم والتاخیر میں بلاتعین کسی جانب ممکن نہیں، پس علم تعین حکم نص سے تو ہو نہیں سکتا، کیونکہ غیرمنصوصہ میں نص موجود نہیںِ اور منصوصہ متعارضہ غیر معلوم التقدیم والتاخیر میں تعارض ہوا، اور تقدیم و تاخیر کا علم نہیں تعین ہو تو کیسے ہو،لہٰذا ان دونوں میں قیاس کی ضرورت پیش آئی، اول یعنی غیرمنصوص میں نفس علم کے لئے اور ثانی یعنی منصوصہ متعارضہ غیر معلوم التقدیم والتاخیر میں تعین کے لئے پس قیاس یا ہر شخص کا شرعا معتبر ہو کہ جو کچھ کسی کی سمجھ میں آئے یا بعض کا معتبر ہو، بعض کا نہیں کل کا تو معتبر ہو نہیں سکتا، لقولہ تعالیٰ ’’وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَسُوْلِ وَاِلیٰ اولی الاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہُ مِنْھُم‘‘لہٰذا بعض کامعتبر ہوگا، جس کا قیاس شرعا معتبر ہے اس کو مجتہد و مستنبط کہتے ہیں اور جس کا قیاس شرعا معتبر نہیں اس کو مقلد کہتے ہیں، اور مقلد پر مجتہد کی تقلید واجب ہے ’’لقولہ تعالیٰ واَتّبِعُ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلیَّ‘‘اب جاننا چاہئے ، ائمہ اربعہ کے تاریخی حالات سے بالیقین معلوم ہوا کہ وہ من اناب الی کے عموم میں داخل ہیں پس ان کا اتباع بھی ضروری ہوا، رہی یہ بات کہ مجتہد تو بہت سے گذرے ہیں کسی دوسرے کی تقلید کیوں نہ کی جائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اتباع کیلئے علم سبیل ضروری ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ ائمہ اربعہ کے سوا کسی مجتہد کا سبیل بہ تفصیل جزئیات و فروع معلوم نہیں کیونکہ کسی کا مذہب اس طرح مدون موجود نہیں،کسی کا اتباع کیونکر ممکن ہے، لہٰذا ائمہ اربعہ میں سے ہی اتباع کرنا ہوگا، ایک بات اور باقی رہی وہ یہ کہ ائمہ اربعہ میں سے ایک ہی کی تقلید کیوں ضروری ہے، یعنی تقلید شخصی کیوں واجب ہے، بلاتعین ائمہ اربعہ کے مذہب کا اتباع کیوں کافی نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسائل دو قسم کے ہیں، اول مختلف فیہا دوم متفق علیہا مسائل متفق علیہا میں تو سب کا اتباع ہوگا، اور مختلف فیہا میں تو سب کا اتباع نہیں ہوسکتا، بعض کا ہوگا بعض کا نہ ہوگا، لہٰذا ضروری ہے کہ کوئی وجہ ترجیح ہو، سو اللہ نے اتباع کو انابت الی اللہ پر معلق فرمایا، جس امام کی انابت الی اﷲ زائد معلوم ہوگی،اس کا اتباع کیا جائے گا، اب تحقیق زیادہ انابت کی بالتفصیل کی جائے گی، یا اجمالاً، تفصیلاً یہ کہ ہر فرع و جزئی مختلف فیہ میں دیکھا جائے کہ حق کس کی جانب ہے، اجمالاً یہ کہ ہر امام کے مجموعہ حالات و کیفیات پر نظر کی جاوے کہ غالبا کوئی حق پر ہوگا، اور کسی کی انابت زائد ہے، صورت اولیٰ میں حرج اور تکلیف مالایطاق کے باوجود مقلد مقلد نہ ہوا، بلکہ اپنی تحقیق کامتبع ہوا، نہ دوسرے کے سبیل کا وہوخلاف المفروض پس صورت ثانیہ متعین ہوگئی کہ کسی کو امام اعظم ابوحنیفہؒ پر ان کے مجموعہ حالات سے یہ ظن غالب و اعتقاد راجح ہوا کہ یہ منیب و مصیب ہیں،کسی کو امام شافعیؒ پر کسی کو امام مالکؒ پر کسی کو امام احمد بن حنبلؒ پر اس لئے ہر ایک نے اسی کا اتباع اختیار کیا، اور جب ایک کے اتباع کابوجہ علم بالانابۃ اجمالاً کے التزام کیا گیا تو اب بعض جزئیات کا بلا کسی وجہ قوی یا ضرورت شدیدہ کے اس کی مخالفت سے شق اول عود کرے گی، وقد ثبت بطلانہ پس اس تقریر سے چند مسائل ثابت ہوئے۔
(۱) وجوب تقلید مطلقاً (۲) تقلید ائمہ اربعہ خصوصا فی المذاہب الاربعہ، (۳) وجوب تقلید شخصی (۴) مقلد اپنے امام کے اقوال کی تقلید کرے گا (۵) اور ان مسائل پر عمل کرے گا، جو اس کے امام نے قرآن کریم اور احادیث سے استنباط کئے ہیں (۶) اور مقلد کو یہ حق نہیں کہ اقوال نبویﷺ سے خود مسائل کا استنباط کرے کیونکہ اس میں استنباط کی قوت نہیں، جیسا کہ مقلد کی تعریف سے معلوم ہوچکا، البتہ مسائل منصوصہ ظاہر الدلالۃ غیر متعارضہ معلومۃ التقدیم والتاخیر میں نص کے موافق عمل کرے گا۔ کما مرسابقا، فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
حررہ العبد محمود عفی عنہ دارالعلوم دیوبند“
(باب التقلید، ج:2، ص: 614، ط: ادارۃ الفاروق)
قرآنِ کریم میں ہے:
(فَسْـَٔلُوْآ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ)[النحل: 43]
ترجمہ:"سو اگر تم کو معلوم نہ ہو تو اہل کتاب سے دریافت کرلو۔" (بیان القرآن)
روح المعانی میں ہے:
"وفي الإكليل للجلال السيوطي أنه استدل بها على جواز تقليد العام في الفروع وانظر التقييد بالفروع فإن الظاهر العموم لا سيما إذا قلنا إن المسألة المأمورين بالمراجعة فيه والسؤال عنها من الأصول، ويؤيد ذلك ما نقل عن الجلال المحلي أنه يلزم غير المجتهد عاميا كان أو غيره التقليد للمجتهد لقوله تعالى: فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ والصحيح أنه لا فرق بين المسائل الاعتقادية وغيرها وبين أن يكون المجتهد حيا أو ميتا".
(سورة النحل، ج:7، ص:387، ط: دار الكتب العلمية)
الانصاف فی بیان اسباب الاختلاف میں ہے:
"أن هذه المذاهب الأربعة المدونة قد اجتمعت الأمة أو من يعتد به منها على جواز تقليدها إلى بومنا هذا وفي ذلك من المصالح ما لا يخفى لا سيما في هذه الأيام التي قصرت فيها الهمم وأشربت النفوس الهوى وأعجب كل ذي رأي برأيه."
(باب حكاية ما حدث في الناس بعد المائة الرابع، ص:97، ط: دار النفائس)
خلاصة التحقيق في بيان حكم التقليد و التلفيق میں ہے:
"أما تقليد مذهب من مذاهبهم (أي من مذاهب المتقدمين من الصحابة و التابعين) الآن غير المذاهب الأربعة فلايجوز، لا لنقصان في مذهبهم و رجحان المذاهب الأربعة عليهم، لأن فيهم الخلفاء المفضلين علي جميع الأمة بل لعدم تدوين مذاهبهم و عدم معرفتنا الآن بشروطها و قيودها و عدم وصول ذلك إلينا بطريق التواتر، حتي لو وصل إلينا شيء من ذلك كذلك جاز لنا تقليده لكنه لم يصل كذلك."
(ص:3، ط: مكتبة الحقيقة )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101481
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن