میں آن لائن ٹیچنگ کا کام کرتا ہوں، ایک آن لائن اکیڈمی بنائی ہے، لوگ پوری دنیا سے پڑھتے ہیں، ہم مارکیٹینگ کرتے ہیں، طلبہ ہماے پاس داخلہ لیتے ہیں، ہم قرآن کریم اور مختلف زبانیں پڑھاتے ہیں، ہمارے پاس جو اساتذہ کرام پڑھاتے ہیں، وہ کبھی کبھار کلاس لیٹ شروع کردیتے ہیں، یا کلاس پڑھاتے سوجاتے ہیں، یا طالب علم غلط پڑھتے ہیں، اور استاذ غلطی نہیں بتلاتے، جس کی وجہ سے ہم ان پر جرمانہ لگاتے ہیں، اور تنخواہ دیتے وقت یہ سب جرمانے ان کی تنخواہ سے کاٹ دیتے ہیں، اور یہ جرمانہ ہمارے پا س ہی رہ جاتا ہے۔
1۔ کیا جرمانہ کاٹنا جائز ہے؟
2۔جرمانہ کے پیسے کو صدقہ کرنا ضروری ہے؟
3۔ اگر یہ جائز نہیں تو اس کا متبادل کیا ہے؟
واضح رہے کہ کسی بھی ادارہ میں تدریسی خدمات فراہم کرنے والے شخص کی شرعی حیثیت اجیر خاص کی ہوتی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ ملازمت کے اوقات میں جائے ملازمت پر موجود ہو تو وہ تنخواہ کا حق دار ہوتا ہے، اور جس وقت میں موجود نہ ہو، اس وقت کی تنخواہ لینے کا حق دار نہیں ہوتا۔
نیز استاذ کی حیثیت طلبہ کے حق میں امین کی ہوتی ہے، لہذا اگر وہ تدریسی ذمہ داری میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ خائن شمار ہوتا ہے، اور عنداللہ ماخوذ ہوگا۔
1۔اساتذہ کی کوتاہی پر جرمانہ عائد کرنا جائز نہیں ہوگا، البتہ ایسے افراد کو معزول کرکے تنخواہ سے محروم کرنے کی اجازت ہوگی۔
2۔جن اوقات میں مذکورہ اساتذہ تدریسی خدمات فراہم کررہے تھے، مگر کسی کوتاہی کی وجہ سے بطور جرمانہ تنخواہ سے کٹوتی کی گئی تھے، وہ انہیں واپس کرنا ضروری ہوگا، صدقہ کرنا کافی نہ ہوگا۔
3۔ایسے اساتذہ کو جو مسلسل کوتاہیاں کر رہے ہوں، ان کو اولاً اغلاط کی نشان دہی کر کے تنبیہ کی جائے، اگر پھر بھی عدم توجہ ودل چسپی کے کوتاہی کریں، تو ان کو معزول کیا جاسکتا ہے، جس کے بارے میں ان کو پہلے سے مطلع کیا جائے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا."
(قوله وإن لم يعمل) أي إذا تمكن من العمل، فلو سلم نفسه ولم يتمكن منه لعذر كمطر ونحوه لا أجر له كما في المعراج عن الذخيرة.
(کتاب الاجارہ ، باب ضمان الأجير، ج:6، ص:69، ط: سعید)
وفيه أيضاً:
"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."
(كتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:61، ط:سعيد)
وفيه أيضاً:
"مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح : وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال، وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز، ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف، قال في الشرنبلالية : ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه."
(كتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:62، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144608100164
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن