بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اجنبی عورت کے جسم کے کسی حصے کو پکڑ کر دم کرنے کا حکم


سوال

1)روحانی علاج کی غرض سے کوئی عامل کسی اجنبی عورت کے جسم کے کسی حصے مثلاً ہاتھ،پاؤں،کمر،سروغیرہ کو پکڑکر دم کرسکتا ہے؟

2)کیا موجودہ دور میں مردوعورت حضرات ان عامل حضرات کے پاس روحانی علاج کے لیے  جا سکتے ہیں؟

جواب

1)واضح رہے کہ شریعت میں غیرمحرم عورتوں کو چھونا حرام ہے، آپﷺ نے کبھی بھی کسی   غیر محرم عورت کو ہاتھ نہیں لگایا یہاں تک کہ بیعت کے وقت بھی ہاتھ   چھو کر  کبھی بیعت نہیں لی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں عامل کا    کسی اجنبیہ عورت کےجسم کے کسی بھی حصے کو پکڑ کر  دم کرنا  حرام ہے۔

2)واضح رہے کہ  تعویذ اور دم کے ذریعے علاج کے  جائز ہونے کی درج ذیل شرائط ہیں:

(1)  تعویذ، دم وغیرہ  اللہ رب العزت کے کلام یعنی قرآن کریم  اور اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں، صفات  اور   اسی  طرح  ادعیہ  ماثورہ  و منقولہ  کے  ذریعہ ہو۔

(2) اس کا معنی و مفہوم معلوم ہو۔

(3) یہ عقیدہ نہ رکھا جائےکہ دم میں خود کوئی تاثیر ہے،بلکہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ مؤثر حقیقی صرف اللہ رب العزت کی ذات ہے اور دم اس کے لیے صرف ایک سبب کے درجے میں ہے۔

(4)اس میں كسي حرام چيز مثلًا  جادو ،شرکیہ اور کفریہ کلمات وغیرہ کا عمل دخل نہ ہو۔

(5) علاج مقصود ہو، کسی کو نقصان پہنچانے یا  کسی اور ناجائز غرض کے لیے نہ ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں صحیح عقائد کا حامل اور  شریعت کا پابند کوئی شخص اگر ان شرائط کے مطابق علاج کرنے  والا  ہو تو  اس سے علاج   کرانا جائز ہوگا، لیکن خواتین کا عاملوں کے پاس جانا بہت سے مفاسد اور فتنوں کا باعث ہوسکتا ہے، اس لیے اجتناب کیا جائے۔

البحر الرائق میں ہیں:

"قال: - رحمه الله - (ويمس ما يحل له النظر إليه) يعني يجوز أن يمس ما حل له النظر إليه من محارمه ومن الرجل لا من الأجنبية."

(کتاب الكراهية: فصل في النظر والمس، ج:8، ص:221، ط: دارالكتاب الاسلامي )

در مختار میں ہے:

"(وما حل نظره) مما مر من ذكر أو أنثى (حل لمسه) إذا أمن الشهوة على نفسه وعليها۔۔(إلا من أجنبية) فلا يحل مس وجهها وكفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ."

(کتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس،ج:6، ص:367، ط: دارالفکر بیروت)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ولا يحل له أن يمس وجهها، ولا كفها، وإن كان يأمن الشهوة."

(كتاب الكراهية، الباب الثامن، ج:5، ص:329، ط: دار الفكر بيروت)

صحيح مسلم میں ہے:

"عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك."

(باب لا باس بالرقی مالم یکن فیه شرک، ج:4، ص:1727، رقم الحدیث: 2200، ط: دار احیاء التراث العربی)

فتح الباری لابن حجر میں ہے:

"وقد أجمع العلماء ‌على ‌جواز ‌الرقى عند اجتماع ثلاثة شروط أن يكون بكلام الله تعالى أو بأسمائه وصفاته وباللسان العربي أو بما يعرف معناه من غيره وأن يعتقد أن الرقية لا تؤثر بذاتها بل بذات الله تعالى"

(جزء:10،باب الرقیٰ،ج:10،ص:195،دار المعرفہ)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وأما ما كان ‌من ‌الآيات القرآنية، والأسماء والصفات الربانية، والدعوات المأثورة النبوية، فلا بأس، بل يستحب سواء كان تعويذا أو رقية أو نشرة، وأما على لغة العبرانية ونحوها، فيمتنع لاحتمال الشرك فيها"

(کتاب الطب والرقیٰ،ج:7،ص:2880،ط:دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"وكان النبي - صلى الله عليه وسلم - يأخذ من ريق نفسه، على إصبعه السبابة، ثم يضعها على التراب، فيعلق بها منه، فيمسح بها على الموضع الجريح والعليل، ويتلفظ بهذه الكلمات في حال المسح. قال الأشرف: هذا يدل على جواز الرقية ما لم تشتمل على شيء من المحرمات كالسحر. وكلمة الكفر اهـ.

ومن المحذور أن تشتمل على كلام غير عربي أو عربي لا يفهم معناه، ولم يرد من طريق صحيح، فإنه يحرم كما صرح به جماعة من أئمة المذاهب الأربعة ; لاحتمال اشتماله على كفر"

(کتاب الجنائز:ج:3،ص:1125،ط:دارالفکر)

رد المحتار میں ہے:

(قوله التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن...ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى...قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اهـ

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی اللبس،ج:6،ص:363،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602102770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں