بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مہینہ کا حمل ضائع ہونے کے بعد نظر آنے والے خون کا حکم


سوال

ایک مہینے کا حمل ضائع ہونے کے کتنے دن بعد نماز پڑھ سکتے ہيں؟ حمل ضائع کرنے کے انیس (19) دن ہوئے، لیکن حیض ابھی تک جاری ہے۔

جواب

بصورتِ مسئولہ جب حمل  ایک مہینے كے بعدضائع ہوگیاہے تو نفاس کے اَحکام کے اعتبار سے اس حمل کا اعتبار نہیں ہے، اور  اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس  شمار نہیں ہوگا۔ البتہ حمل گرنے کے بعد جب خون تین دن سے زیادہ آیا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ چوں کہ اس سے پہلے ایک کامل طہر گزر چکا ہے، لہذا حمل گرنے کے بعد نظر آنے والا خون حیض کا خون تھا، حیض کی مدت گزرنے کے بعد (یعنی اگر مذکورہ خاتون کے حیض کے ایّامِ عادت متعین ہیں تو ایّامِ عادت گزرنے کے بعد، اور اگر ایامِ عادت متعین نہیں ہیں تو خون شروع ہونے سے دس دن گزرنے کے بعد) مزید آنے والا خون  استحاضہ کا خون شمار ہوگا، جس میں مذکورہ خاتون پر ہر وقت کے ليے وضو کرکے  نماز  پڑھنا ضروری ہے۔

ملحوظ رہے کہ شرعی عذر کے بغیر  حمل ساقط کرنا گناہِ کبیرہ ہے، تاہم اگر حمل سے عورت کی جان کو خطرہ  ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو، یا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس  سے پہلے بچہ کو نقصان ہو   اور کوئی  تجربہ کار مستند مسلمان ڈاکٹر اس کی تصدیق کرتا ہے  تو اس جیسے اعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے   پہلے (یعنی چارہ ماہ پہلے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی، اور چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاط حمل جائزنہیں ہے،

فتاوی شامی میں ہے:

"نعم، نقل بعضهم أنه اتفق العلماء على أن نفخ الروح لايكون إلا بعد أربعة أشهر أي عقبها كما صرح به جماعة.

والمرئي حيض إن دام ثلاثا وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة، ولو لم يدر حاله ولا عدد أيام حملها ودام الدم تدع الصلاة أيام حيضها بيقين ثم تغتسل ثم تصلي كمعذور.

(قوله: والمرئي) أي الدم المرئي مع السقط الذي لم يظهر من خلقه شيء (قوله: وتقدمه) أي وجد قبله بعد حيضها السابق، ليصير فاصلًا بين الحيضتين. وزاد في النهاية قيدًا آخر، وهو أن يوافق تمام عادتها، ولعله مبني على أن العادة لا تنتقل بمرة والمعتمد خلافه، فتأمل. (قوله: وإلا استحاضة) أي إن لم يدم ثلاثا وتقدمه طهر تام، أو دام ثلاثًا ولم يتقدمه طهر تام، أو لم يدم ثلاثًا ولاتقدمه طهر تام."

(مطلب فى أحوال السقط واحكامه، ج:1، ص:302/3، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم  


فتوی نمبر : 144205201320

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں