ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوگیا، ورثاء میں بیوہ، تین بیٹے اور دو بیٹیاں حیات ہیں، والد مرحوم نے ترکہ میں گھر کا سامان وغیرہ چھوڑ ا ہے، اور یہ سامان شرعی طریقہ سے تقسیم نہیں کیا تھا، یہ سامان میرے بھائیوں کے پاس تھا، میں نے اپنے بھائیوں سے کہا کہمیرا جتنا حصہ بنتا ہے، وہ میں نے چھوڑ دیاہے، وہ تم لے لو، میں نے اپنا حصہ ان کے لیے چھوڑ دیا، لیکن مذکورہ سامان میں بہنوں اور والدہ کو حصہ نہیں دیا گیا، اب اس سامان میں سے میرے بھائیوں نے مجھے ایک فریج دیا ہے کہ آپ لے لو، ہم نے نیا فریج لے لیا ہے، اس کی ضرورت نہیں ہے، اب اس فریج میں جس کی قیمت پندرہ ہزار روپے ہوگی، میری والدہ، بھائیوں اور بہنوں کا حصہ ہوگا یا نہیں؟
فیصد اور قیمت دونوں اعتبار سے ہر ایک کے حصہ بتادیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد مرحوم کے ترکہ میں موجود گھر کے سامان میں تمام شرعی ورثاء کا حق ہے ، سائل کے بھائیوں کے لیے یہ جائز نہیں تھا کہ وہ اس فریج کو ترکہ کی تقسیم سے قبل سائل کو دے، سائل اور اس کے بھائیوں پر لازم ہے کہ وہ اس فریج کو باقی ترکہ میں شامل کرکے تمام شرعی ورثاء کے درمیان ترکہ کو شریعت کے مطابق تقسیم کرے، اور سائل کااپنے بھائیوں سے یہ کہناکہ" میرا جتنا حصہ بنتا ہے، وہ میں نے چھوڑ دیاہے، وہ تم لے لو" اس سے سائل کا حق ترکہ سے ختم نہیں ہوگا،، اگر کوئی حصہ نہ لینا چاہے اور اپنے حصہ سے دست بردار ہونا چاہے، تو ترکہ کو تقسیم کرکے اپنے حصہ پر قبضہ کرلے اور اس کے بعد اپنی خوشی اور رضامندی سے جس کو دینا چاہے دے سکتا ہے۔
سائل کے والد مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرض ہو، تو اس کو کل ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اس کو باقی ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ کرنے کے بعد،، مرحوم کی مابقیہ منقولہ وغیر منقولہ ترکہ کو 64 حصوں میں تقسیم کرکے8 حصے مرحوم کی بیوہ (سائل کی والدہ)کو، 14 حصےمرحوم کے ہر ایک بیٹے کو اور7 حصے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
صورتِ تقسیم یہ ہوگی:
سائل کے والد مرحوم:64/8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||
8 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے 12.5فیصد مرحوم کی بیوہ (سائل کی والدہ)کو، 21.875 فیصد مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو اور 10.937 فیصد مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔
فتاوي عالمگيري میں ہے:
"فشركة الجبر أن يختلط المالان لرجلين بغير اختيار المالكين خلطا لا يمكن التمييز بينهما حقيقة بأن كان الجنس واحدا أو يمكن التمييز بضرب كلفة ومشقة نحو أن تختلط الحنطة بالشعير أو يرثا مالا وشركة الاختيار أن يوهب لهما مال أو يملكا مالا باستيلاء أو يخلطا مالهما، كذا في الذخيرة أو يملكا مالا بالشراء أو بالصدقة، كذا في فتاوى قاضي خان أو يوصى لهما فيقبلان، كذا في الاختيار شرح المختار، وركنها اجتماع النصيبين، وحكمها وقوع الزيادة على الشركة بقدر الملك،ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره، وكل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبهويجوز بيع أحدهما نصيبه من شريكه في جميع الصور ومن غير شريكه بغير إذنه إلا في صورة الخلط والاختلاط، كذا في الكافي."
(کتاب الشرکة، ج:2، ص: 301، ط: دارالفکر بیروت)
وفیه ایضاً:
"وهبة المشاع فيما لا يحتمل القسمة تجوز من الشريك ومن الأجنبي، كذا في الفصول العمادية.......ويشترط في صحة هبة المشاع الذي لا يحتمل القسمة أن يكون قدرا معلوما حتى لو وهب نصيبه من عبد ولم يعلم به لم يجز؛ لأنها جهالة توجب المنازعة، كذا في البحر الرائق.وإذا علم الموهوب له نصيب الواهب ينبغي أن تجوز عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وعندهما لا تجوز، هكذا في محيط السرخسي."
(کتاب الهبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج:4، ص: 378، ط: دارالفكر بيروت)
قرة عيون الأخيار تكملة رد المحتار میں ہے:
"ولو قال تركت حقي من الميراث أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه، لان الارث جبري لا يصح تركه."
(کتاب الدعوی، ج: 8، ص: 208، ط: دار الفكر، بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607101669
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن