ہماری دکان پر ''انقلاب'' نام سے ایک اخبار آتا ہے، اب وہ اخبار بہت سارے اکٹھے ہو گئے ہیں، اب کیا ان کو فروخت کرنا جائز ہے؟ اگر نہیں تو پھر ان کا کیا کیا جائے؟
فروخت کرسکتے ہیں۔
البتہ اگرمعلوم ہو کہ اخبار کے تراشے میں قرآنی آیت ہے تو اُسے ادب سے رکھنا اور بے ادبی سے بچانا واجب ہے، عام اخبارات، رسائل اور ڈائریوں (جن میں آیتِ مبارکہ یا حدیثِ مبارک نہ ہو) کا یہ حکم نہیں، انہیں استعمال میں لایا جاسکتا ہے، مثلاً: فروٹ کی پیٹیوں میں رکھنا، اشیاء لپیٹ کر دینا یا بطورِ دسترخوان کے استعمال کرنا، اس حوالے سے بے جا تشدد بھی مناسب نہیں ہے۔
باقی رہا مذکورہ اخبارات، کاغذات، اشتہارات اور شادی کارڈز (کہ جس پر قرآنی آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ کے ترجمے شائع کیے جاتے ہیں) کے استعمال کے بعد ردی ہونے کی صورت میں بشمول قرآن کے مقدس بوسیدہ اوراق کے اُن کو کسی محفوظ مقام پر پاک کپڑے میں ڈال کر دفن کردیا جائے، یہی بہتر اور مذکورہ اشیاء کی توہین سے حفاظت کرنے کا احسن طریق ہے۔ علاوہ ازیں فقہاء نے ان مذکورہ اشیاء بشمول قرآن پاک کے مقدس بوسیدہ اوراق کی حفاظت کے اور بھی اسباب ذکر کیے ہیں،مثلاً: اگر مذکورہ اخبارات، اشتہارات اور شادی کارڈز وغیرہ اور مقدس بوسیدہ اوراق دُھل سکیں، تو حروف کو دھو کر ان کا پانی کسی کنویں یا ٹینکی یا کسی ایسی جگہ بہا دیں جہاں کسی قسم کی نجاست نہ پہنچ جائے اور اسی طرح مذکورہ تمام اشیاء بشمول مقدس اوراق کو کسی تھیلی میں ڈال کر اس میں پتھر وغیرہ ڈال کر دریا یا سمندر یا کنویں میں بھی ڈالا جاسکتا ہے۔
تاہم اگر ان اخبارات، کاغذات، اشتہارات، شادی کارڈز اور دیگر وہ تمام اشیاء جن پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقدس نام ہوں، تو ان اشیاء سے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کے مقدس ناموں کو مٹا یاجائے پھر ان کو کسی بھی دنیاوی کام کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
’’الکتب التي لاینتفع بها یمحی فيها اسم اللّٰه وملائکته ورسله ویحرق الباقي، ولابأس بأن تلقی في ماء جار کما هي، أوتدفن وهو أحسن کما في الأنبیاء ... وکذا جمیع الکتب إذا بلیت وخرجت عن الانتفاع بها، یعنی أن الدفن لیس فیه إخلال بالتعظیم؛ لأن أفضل الناس یدفنون. وفي الذخیرة: المصحف إذا صار خلقاً وتعذر القراء ة منه لایحرق بالنار، إلیه أشار محمد، وبه نأخذ، ولایکره دفنه، وینبغي أن یلف بخرقة طاهرة ویلحد له؛ لأنه لو شق ودفن یحتاج إلی إهالة التراب علیه، وفي ذٰلک نوع تحقیر، إلا إذا جعل فوقه سقف، وإن شاء غسله بالماء، أو وضعه في موضع طاهر لاتصل إلیه ید محدث ولاغبار ولاقذر؛ تعظیماً لکلام اللّٰه عز وجل‘‘. (فتاویٰ شامی،ج:۶،ص:۴۲۲،ط:سعید)
’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ میں ہے:
’’ویکرہ أن یجعل شیئاً في کاغذ فیها اسم اللّٰه تعالٰی کانت الکتابة علی ظاهرها أو باطنها‘‘. (فتاویٰ عالمگیری،ج:۵،ص:۳۲۲،ط:ماجدیہ)
وفیہ ایضاً:
’’ولایجوز زلف شيء في کاغذ فیه مکتوب من الفقه، ولوکان فیه اسم اللّٰه تعالٰی أو اسم النبي یجوز محوه لیلف فیه شيء، کذا في القنیة ولو محا لوحًا کتب فیه واستعمله في أمر الدنیا یجوز.‘‘ (حوالہ بالا)
وفیہ ایضاً:
''الأصل في وجوب التعزیر أنّ کلّ من ارتکب منکراً أواذیٰ مسلماً بغیرحق بقوله أو بفعله یجب التعزیر''…(فتاوی ہندیہ :2/168)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203201302
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن