میں میزان کے ایکویٹی فنڈز میں کچھ پیسے سرمائے کے طور پر لگانا چاہتا ہوں ،اس ایکویٹی فنڈ میں نفع اور نقصان دونوں کے امکان موجود ہیں، یہ فنڈز پاکستان میں موجود انرجی کمپنیز(مراد توانائی کو پیدا کرنے ،بیچنے اور تقسیم کرنے والی کمپنیاں ہیں، جیسے کہ پیٹرول ،گیس اور تیل وغیرہ کی کمپنیاں ہیں) میں ایک شریعہ بورڈ کے زیر انتظام لگائے جائیں گے، ان کمپنیوں کے نام کی فائنل لسٹ بھی دی جائے گی ،اور اس میں کوئی فکسڈ منافع نہیں ہیں، میرے دریافت کرنے پر آفیسر نے بتایا کہ اس میں سود کا عنصرموجود نہیں ہے، میرا سوال یہ ہے کہ اس چیز میں پیسے لگانا جائز ہے یا نہیں؟ ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ جس طرح کراچی اسٹاک ایکسچینج میں پیسے لگایا جاتا ہے، کمپنیوں کے شیئرز خریدنے کے لیے، یہ وہی چیز ہے، بس اس میں وہ کمپنیز ہوں گی جو شریعہ بورڈ نے تجویز کی ہوں گی۔ ایک چیز یہ بتاتا چلوں کہ منافع کی صورت میں گورنمنٹ اس پر 20 سے 15 فیصد ٹیکس بھی عائد کرے گی ،میرے اس حوالے سے رہنمائی کی جائے کہ ایکویٹی فنڈ میں پیسے سرمایہ کاری کرنا جائز ہے ؟
سائل کے کہنے کے مطابق چونکہ مذکورہ فنڈ سرمایہ کاری صرف انرجی کمپنیوں میں کرے گی ،یعنی انرجی کمپنیوں کے حصص (شیئرز)خریدنے میں صرف کرے گی ،اس لئےحصص خریدنے کی جو شرائط ہیں اگر ان شرائط کو مدنظر رکھ کر یہ فنڈوالے کام کرے تو اس صورت میں مذکورہ فنڈ میں سرمایہ کاری کرنا ،جائزہوگا ورنہ نہیں،ان شرائط کا خلاصہ یہ ہے کہ:
۱:-کمپنی کا اصل کاروبار حلال ہو، سودی کاروبار یا ممنوعہ چیزوں کا کاروبار نہ ہو۔
۲:-کمپنی کی غالب آمدنی حلال ہو۔
۳:- جب تک مشتری کے پاس شیئرز کا قبضہ نہ آئے تب تک اس کوآگے نہ بیچے۔ اور موجودہ زمانے کے قبضہ کے لیے ضروری ہے کہ سی ڈی سی کے اکاؤنٹس میں شیئرز مشتری کے نام منتقل ہو جائیں۔
۴:- شیئرز کی شارٹ سیل (یعنی مشتری کی ملکیت میں شیئر آنے سے پہلے آگے بیچنا) اور فارورڈ سیل ( یعنی بیع کومستقبل کے زمانے کی طرف نسبت کرنا) نہ کی جائے۔
۵:-اس کمپنی کے شیئرز کی مارکیٹ ویلیو مائع اثاثوں جیسے نقد کی قیمت سے زیادہ ہو۔
مگر یہ بات واضح رہنی چاہئےکہ فی زمانہ اسٹاک مارکیٹ میں شیئرز کے کاروبار کے لیے بیان کردہ شرائط کا لحاظ نہیں رکھا جاتا، شرائط کے ساتھ اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار کو جائز بتانے والے فتاویٰ کو صرف بیانِ جواز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، شرائط کے لحاظ کی کوئی ضمانت یا یقین دہانی نہیں ہوتی،اس لیے اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار کے جواز کا فتویٰ مشکل ہورہا ہے۔
لہٰذا اسٹاک مارکیٹ کے شیئرز کی خرید و فروخت سے وابستہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے معاملات میں درج بالا شرائط کی موجودگی کی مکمل یقین دہانی حاصل کریں یا پھر اسٹاک مارکیٹ کے کاروبار سے علیحدہ رہیں۔
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"فنقول من حکم المبیع إذا کان منقولا أن لایجوز بیعہٗ قبل القبض إلٰی أن قال وأما إذا تصرف فیہ مع بائعہٖ فإن باعہٗ منہ لم یجز بیعہ أصلا قبل القبض."
(کتاب البیوع،الفصل الثالث فی معرفۃ المبیع والثمن والتصرف فیہما قبل القبض،ج:۳، ص:۱۳،ط:بولاق مصر)
وفیہ ایضاً:
’’آکل الربا وکاسب الحرام أہدی إلیہ أو أضافہ، وغالب مالہ حرام لا یقبل ولایأکل ما لم یخبرہ أن ذٰلک المال أصلہٗ حلال ورثہٗ أو استقرضہٗ، وإن کان غالب مالہٖ حلالا لا بأس بقبول ہدیتہٖ والأکل منہا."
(کتاب الکراهیۃ، الباب الثانی عشر: فی الهدایا والضیافات، ج:۵، ص:۳۴۳ ،ط:بولاق مصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100187
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن