"سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی" میں أعلیپر کھڑا زبر نہیں ہے، پھر بھی وقف کی صورت میں الْأَعْلَی کےلام کو کھڑا کرکے پڑھا جاتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ اسی طرح أشقی ، أتقیاورینسیپر بھی کھڑا زبر نہیں ہے، پھر بھی اعلیٰ کی طرح پڑھے جاتے ہیں ؟
الأعلی اور اس جیسے کلمات کے آخر میں الف مقصورہ ہے، جس کو الف ممدودہ کہتے ہیں(جس میں الف ساکن ہو اور اس سے پہلے زبر ہو)، اور کلام عرب میں ایک کلمہ کے آخر میں حرف مدہ ہو اور دوسرے کلمہ کی ابتداء میں کوئی ساکن حرف تو اس کو اجتماع ساکنین علی غیر حدہ کہتے ہیں، اور ایسی صورت میں اگر دو کلموں کو ملا کر پڑھیں تو پہلے کلمہ کے ساکن کو گرا کر صرف حرف مدہ سے پہلے والی حرکت پڑھی جاتی ہے، اور اگر حرف مدہ پر وقف کیا جائے تو اس کو کھڑے زبر، زیر یا الٹا پیش کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔
قرآن کریم کے رسم الخط میں جہاں الف مقصورہ کے بعد دوسرے کلمہ میں پہلا حرف ساکن ہو تو الف مقصورہ پر کھڑے زبر کی بجائے صرف زبر ڈالا جاتا ہے۔
سوال میں مذکورہ کلمات میں یہی صورت ہے کہ الأعلی، أشقی، أتقیاور ینسی کے بعد الَّذِي ہے جس میں پہلا حرف ساکن ہے، اب یہاں الف دونوں کلموں کو ملا کر پڑھتے ہیں تو الف گر جاتا ہے، اور اگر درمیان میں وقف کریں تو الف مقصورہ اپنی اصلی حالت پر لوٹ آتا ہے، جب کہ حرکات وصل (ملا کر پڑھنے) کے مطابق لگائی جاتی ہیں۔
النشر في القراءات العشر میں ہے:
"(الثاني) : أنه إذا وقع بعد الألف الممال ساكن فإن تلك الألف تسقط لسكونها ولقي ذلك الساكن فحينئذ تذهب الإمالة على نوعيها لأنها إنما كانت من أجل وجود الألف لفظا فلما عدمت فيه امتنعت الإمالة بعدمها فإن وقف عليها انفصلت من الساكن تنوينا كان، أو غير تنوين، وعادت الإمالة بين اللفظين بعودها على حسب ما تأصل وتقرر (فالتنوين) يلحق الاسم مرفوعا، ومجرورا، ومنصوبا ويكون متصلا به فالمرفوع نحو هدى للمتقين ; وأجل مسمى، لا يغني مولى، هو عليهم عمى والمجرور نحو في قرى محصنة، إلى أجل مسمى، عن مولى، من ربا، من عسل مصفى والمنصوب نحو قرى ظاهرة، أو كانوا غزا، أن يحشر الناس ضحى، مكانا سوى، أن يترك سدى.
(وغير التنوين) لا يكون إلا منفصلا في كلمة أخرى ويكون ذلك في اسم، وفعل. فالاسم نحو موسى الكتاب، عيسى ابن مريم، القتلى الحر، جنى الجنتين، الرؤيا التي، ذكرى الدار، القرى التي والفعل نحو طغى الماء، أحيا الناس.
والوقف بالإمالة، أو بين اللفظين لمن مذهبه ذلك في النوعين هو المأخوذ به والمعول عليه، وهو الثابت نصا وأداء، وهو الذي لا يؤخذ نصا عن أحد من أئمة القراء المتقدمين بخلافه، بل هو المنصوص به عنهم، وهو الذي عليه العمل."
(باب مذاھبھم فی الفتح، فصل فی أمالة أحرف الھجاء، تنبیھات، الثانی، ج:2 ،ص:74، ط:المطبعة التجارية الكبرى)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144504100408
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن