بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

آلاتِ موسیقی سیکھنے کا حکم


سوال

 آلاتِ موسیقی  جیسے وائلن وغیرہ  سیکھنا جائز ہے ؟

 

جواب

واضح رہے کہ وائلن یا اس جیسے دیگر آلات،    موسیقی کے لیے خاص ہیں، اور موسیقی دینِ اسلام میں حرام ہے، لہذا آلاتِ موسیقی کا استعمال اور  ان کا سیکھنا بھی ناجائز اور حرام ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ ﴾ [ لقمان : 6 ]

"ترجمہ: اور بعض لوگ ایسے  بھی ہیں جو ان باتوں کے خریدار بنتے ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی ہیں، تاکہ اللہ کی یاد سے بے سمجھے گم راہ کرے اور اس کی ہنسی اڑائے ، ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔"

حدیث شریف میں ہے:

"وعن نافع رحمه الله قال : كنت مع ابن عمر في طريق فسمع مزماراً، فوضع أصبعيه في أذنيه، وناء عن الطريق إلى الجانب الآخر، ثم قال لي بعد أن بعد : يا نافع هل تسمع شيئاً ؟ قلت : لا، فرفع أصبعيه عن أذنيه قال : كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمع صوت يراع، فصنع مثل ما صنعت . قال نافع: فكنت إذ ذاك صغيراً . رواه أحمد وأبو داود".

(مشكاة المصابيح، کتاب الاداب، باب البيان والشعر، الفصل الثالث، ج:3، ص:1355، ط: المکتب الاسلامی)

"حضرت نافع سے روایت ہے کہ میں ایک جگہ حضرت  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ جارہا تھا، انہوں نے بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور راستے سے ایک طرف ہوکر چلنے لگے، دور ہوجانے کے بعد مجھ سے کہا :اے نافع کیا تم کچھ  سن رہے ہو؟ میں نے کہا : نہیں، انہوں نے کان سے انگلیاں نکالیں اور فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جارہا تھا،نبی کریم ﷺ نے بانسری کی آواز سنی اور ایسے ہی کیا جیسا میں نے کیا۔"

ایک اور حدیث میں ہے:

"عن أبي أمامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله بعثني رحمة وهدى للعالمين، وأمرني أن أمحق المزامير۔۔۔".

(مسند احمد، تتمة مسند الأنصار، حديث أبي أمامة الباهلي الصدي بن عجلان بن عمرو، ج:36، ص:451،ط: مؤسسۃ الرسالۃ)

"ترجمہ:ابو امامہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اللہ نے مجھے سارے جہانوں کے لیے ہدایت اور رحمت بناکر بھیجا ہے، اور تمام ”مزامیر“ (گانے باجے کے سامان) کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے"۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"قال ابن جرير: حدثني يونس بن عبد الأعلى، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يزيد بن يونس، عن أبي صخر، عن أبي معاوية البجلي، عن سعيد بن جبير، عن أبي الصهباء البكري، أنه سمع عبد الله بن مسعود -وهو يسأل عن هذه الآية:﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ »- فقال عبد الله: الغناء، والله الذي لا إله إلا هو، يرددها ثلاث مرات."

(سورة لقمان  آية :6، ج:6، ص660، ط: دار طيبة)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وفي البزازية استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله عليه الصلاة والسلام «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه عليه الصلاة والسلام أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه» 

(قوله: فسق) أي خروج عن الطاعة ولا يخفى أن في الجلوس عليها استماعا لها والاستماع معصية فهما معصيتان."

(کتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:349، ط: دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144511101098

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں