بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

االاتِ موسیقی اور ٹی وی کی خرید و فروخت کا حکم


سوال

موسیقی کے آلات ٹی وی وغیرہ فروخت کرنا شرعاً کیسا ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں االاتِ موسیقی چونکہ آلاتِ معصیت (گناہ) ہیں، لہذا اس کی خرید و فروخت ناجائز ہے۔ 

نیز واضح ہو کہ ٹی وی  کا استعمال جان دار کی تصاویر پر مشتمل پروگراموں کے دیکھنے میں ہوتا ہے اور ان  پروگراموں میں  فحش تصاویرنہ بھی ہوں تب بھی بوجہ تصویر ہونے کے از روئے شرع ان کا دیکھنا اور دکھانا حرام ہے، جب کہ ٹی وی پر آنے والے اکثر پروگرام فحاشی، عریانیت اور بے حیائی پر مشتمل ہوتے ہیں، لہٰذا  نہ تو ٹی وی کو گھر میں رکھنا جائز ہے اور نہ ہی ٹی وی کی خرید و فروخت اور کاروبار  جائز ہے ، نیز اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حلال نہیں۔

عمدة القاری میں ہے:

"قوله" مزمارة الشيطان " بكسر الميم يعني الغناء أو الدف وهمزة الاستفهام قبلها مقدرة وهي مشتقة من الزمير وهو الصوت الذي له صفير وسميت به الآلة المعروفة التي يرمز بها وإضافتها إلى الشيطان من جهة أنها تلهي وتشغل القلب عن الذكر وفي رواية حماد بن سلمة عند أحمد " فقال يا عباد الله المزمور عند رسول الله - صلى الله عليه وسلم  - " قال القرطبي " المزمور " الصوت وضبطه عياض بضم الميم وحكى فتحها وقال ابن سيده يقال زمر يزمر زميرا وزمرانا غنى في القصب وامرأة زامرة ولا يقال رجل زامر إنما هو زمار وقد حكى بعضهم رجل زامر وفي الجامع في الحديث " نهى عن كسب الزمارة " يريد الفاجرة وفي الصحاح ولا يقال للمرأة زمارة وفي كتاب ابن التين الزمر الصوت الحسن ويطلق على الغناء أيضا وجمع المزمار مزامير."

 (6 / 269، باب الحراب والدرق يوم العيد، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

         تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

’’فالضابط في هذا... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريماً،... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً،... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح."

(تکملہ فتح المہم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط:  دارالعلوم کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں