بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

الکوحل کی آمیزش والے پرفیوم کے استعمال کا حکم


سوال

کیا الکوحل ملا پرفیوم استعمال کرنا حلال ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  پرفیومز، دوائیوں  وغیرہ میں  جو الکحل استعمال ہوتا ہے، اس کے حکم سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ الکحل خشک وتر کھجور اور خشک وتر انگور اور منقیٰ سے کشیدہ ہو، تو  نجس ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال  جائز نہیں ہوگا، اور اگر ان میں استعمال کیا جانے والا الکحل خشک وتر کھجور اور خشک وتر انگور اور منقی سے کشیدہ نہ ہو، بلکہ ان کے علاوہ چیزوں مثلاً آلو، لکڑی اور گنا وغیرہ سے کشیدہ  ہو، تو ایسا الکوحل ناپاک نہیں ہوتا، اور  اس کا استعمال بھی حرام نہیں ہے۔

 موجودہ زمانہ میں چوں کہ دوائیوں، پر فیومز وغیرہ میں الکحل کا استعمال عام ہوچکا ہے، اور ان میں استعمال شدہ الکحل  خشک وتر کھجور اور خشک وتر انگور اور منقیٰ سے بنی ہوئی شراب سے کشید کیا گیا نہیں ہوتا، بلکہ دیگر اشیاء سے حاصل شدہ ہوتا ہے، اس لیے اس طرح کے پرفیومز کا استعمال درست ہے، مزید برآں یہ کہ پرفیوم کا استعمال کرنے سے اس کا مادہ ہوا میں مل کر ختم ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے کیمیکل کے اثرات بھی مفقود ہوجاتے ہیں، چناں چہ ایسے پرفیوم کا استعمال جائز ہے، تاہم احتیاط اور اولیٰ یہی ہے کہ اس کے بجائے عطر استعمال کیا جائے۔

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

”سینٹ سے بھی زیادہ اہم قلم کی روشنائی اور اس سے بھی زیادہ قابل توجہ دواؤں کا مسئلہ ہے۔ ایلو پیتھی کی دواؤں میں الکحل بکثرت استعمال ہو رہا ہے اور ہومیو پیتھی کا تو مدار الکحل پر ہے، اس اہمیت کے پیش نظر بندہ نے اس کی طرف خصوصی توجہ کی اور حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تحقیق کی فرمائش کی۔ تحقیق سے ثابت ہوا کہ عام استعمال ہونے والا الکحل انگور یا کھجور سے نہیں بنتا بلکہ گنے یا چیڑ کی لکڑی سے بنتا ہے۔ علاوہ ازیں گنے سے الکحل بنانے میں تو خمیر اٹھایا جاتا ہے مگر چیڑ کی لکڑی سے کشید کیا جاتا ہے خمیر نہیں اُٹھایا جاتا اور زیادہ تر یہی استعمال ہوتا ہے۔

انگور یا کھجور کی شراب صرف پینے کی غرض سے ممکن ہے کہ بہت اونچے طبقے کے لیے بنائی جاتی ہے یہ بھی محض احتمال کے درجہ میں ہے یقین نہیں ۔ البتہ اس کا یقین ہے کہ پینے کے سوا باقی سب ضروریات میں انگور یا کھجور کا الکل نہیں ہوتا لہذا یہ نجس نہیں اور بغرض تداوی قدر مسکر سے کم اس کا استعمال بھی جائز ہے“۔ 

(کتاب الحظر و الاباحۃ، ج:11، ص:72، ط: جمعیۃ پبلیکیشنز)

     فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله وبه يفتى) أي بقول محمد، وهو قول الأئمة الثلاثة لقوله عليه الصلاة والسلام «كل مسكر خمر وكل مسكر حرام» رواه مسلم، وقوله عليه الصلاة والسلام " «ما أسكر كثيره فقليله حرام» رواه أحمد وابن ماجه والدارقطني وصححه (قوله غيره) كصاحب الملتقى والمواهب والكفاية والنهاية والمعراج وشرح المجمع وشرح درر البحار والقهستاني والعيني، حيث قالوا الفتوى في زماننا بقول محمد لغلبة الفساد. وعلل بعضهم بقوله لأن الفساق يجتمعون على هذه الأشربة ويقصدون اللهو والسكر بشربها.

أقول: والظاهر أن مرادهم التحريم مطلقا وسد الباب بالكلية وإلا فالحرمة عند قصد اللهو ليست محل الخلاف بل متفق عليها كما مر ويأتي، يعني لما كان الغالب في هذه الأزمنة قصد اللهو لا التقوي على الطاعة منعوا من ذلك أصلا تأمل". 

           (کتاب الأشربة، 455/6، ط:دار الفکر)   

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسةً عند الإمام أبي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخرى، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل إلى حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل على مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالى، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخرى ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبة مع المواد الأخرى، ولايحكم بنجاستها أخذاً بقول أبي حنيفة رحمه الله. وإن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع".

(كتاب الأشربة، حكم الكحول المسكرة، 608/3، ط: مكتبة دار العلوم کراچی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144604100962

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں