بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

الکوحل کی شرعی حیثیت


سوال

میں بلڈ پریشر کا مریض ہوں اور اس کے علاج کیلئے ہومیوپیتھک دوا استعمال کرتا ہوں، جس کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ اس میں زیادہ تر مقدار الکوحل کی ہوا کرتی ہے، کیا ازروے شریعت یہ طریقہ علاج درست ہے ؟

جواب

بلڈ پریشر کے مریض  کا علاج کےلیے  ہومیو پیتھک دوا  استعمال کرنا جائز ہے،معمولی مقدار کے الکحل کی وجہ سے ممانعت نہیں ہوگی، دوسری وجہ  یہ ہے کہ موجودہ دور میں الکحل عام طور پر کیمیکل کا بنا ہوا ہوتا ہے اوروہ پاک ہے ۔

نیزواضح رہے کہ "الکوحل" پر مشتمل ادویات کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ   اس میں  دیکھا جائے گا کہ  اس میں کس قسم کا الکحل استعمال کیا گیا ہے؟ اگر اس میں منقیٰ، انگور یا کھجور سے حاصل کیا ہوا الکحل استعمال کیا گیا ہے تو   اس کا استعمال جائز نہیں ہے، الا یہ کہ اس کے علاوہ شفا کی کوئی صورت نہ ہو اور مرض ایسا شدید ہو کہ جان یا عضو کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو اور مسلمان طبیب اس کو تجویز کرے  اور اگر مذکورہ  اشیاء کے علاوہ کسی اور چیز مثلاً جو، آلو، شہد، گنا، سبزی وغیرہ سے حاصل کیا گیا الکحل استعمال کیا گیا ہو  تو اگر  وہ نشہ کی حد تک نہ پہنچا ہو اور  مضر بھی نہ ہو تو اس کا استعمال جائز ہوگا، اور اگر نشہ کی حد تک پہنچ گیا ہو یا مضر ہو تو ا س کا استعمال جائز نہیں ہوگا، البتہ مذکورہ شرائط کے مطابق استعمال کی گنجائش ہوگی۔

عمومًا دواؤں میں دوسری قسم کا الکحل استعمال ہوتاہے، اس لیے جب تک تحقیق نہ ہو کہ انگور وغیرہ سے کشیدکردہ الکحل استعمال ہوا ہے، دوا لینے کی اجازت ہوگی، البتہ یقین سے معلوم ہو کہ انگور وغیرہ سے حاصل کردہ الکحل شامل کیا گیا ہے تو مذکورہ تفصیل کی روشنی میں دوا کے استعمال کا حکم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وبه علم أن المراد الأشربة المائعة، وأن البنج ونحوه من الجامدات إنما يحرم إذا أراد به السكر وهو الكثير منه، دون القليل المراد به التداوي ونحوه كالتطيب بالعنبر وجوزة الطيب، ونظير ذلك ما كان سميًا قتالًا كالمحمودة وهي السقمونيا ونحوها من الأدوية السمية فإن استعمال القليل منها جائز، بخلاف القدر المضر فإنه يحرم".

(كتاب الحدود، باب حد الشرب المحرم، ج:4 ،ص:42، ط: سعید)

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسةً عند الإمام أبي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخرى، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل إلى حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل على مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالى، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخرى ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبة مع المواد الأخرى، ولايحكم بنجاستها أخذاً بقول أبي حنيفة رحمه الله. و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع."

(كتاب الأشربة، حكم الكحول المسكرة، 3،ص:603، ط: مكتبة دار العلوم)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144603101832

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں