عقیدہ توحید میں جو اللہ کی ذات کے بارے میں آتا ہےکہ اللہ عرش پر موجود ہے اور اللہ کے ہاتھ ہیں، جیسا کہ قرآن میں ہے ، اس میں ایک عام مسلمان کو کیا کرنا چاہیے؟ کیوں کہ کوئی کیا دلیل دیتا ہے، کوئی کیا دلیل ہے؟
واضح رہے کہ اللہ تعالی کی ذات جسم جہت اور مکان سے پاک ہے اور اللہ تعالی کی صفات میں جہاں یہ ذکر ہے کہ: ” اللہ آسمان میں ہے “تو ان تمام آیات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ صفت بلا کیفیت ثابت ہے ،انسان اس بات کا ادراک نہیں کرسکتا، اہلِ سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ "اللہ تعالی" کی ذات کسی مکان کے ساتھ اس طرح خاص نہیں ہے، جس طرح انسانی جسم ایک مکان کے ساتھ خاص ہوتا ہے ،اللہ کی جو صفات کسی مکان کے اختصاص کی طرف اشارہ کرتی ہیں (مثلاً: ”استوى علی العرش“) یا اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ: اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے، ان کا مطلب یہ ہی کہ بلا کسی کیفیت کے اللہ تعالیٰ کے لیے یہ صفت ثابت ہے، اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے لیے بہت سی صفات ذاتیہ اور فعلیہ وارد ہوئی ہیں ان میں سے بعض صفات صفات متشابہات کہلاتی ہیں، یعنی ان کی حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے مثلاً لفظ ید (ہاتھ) کما في قولہ تعالی:یَدُ اللهِ فوقَ أیدِیہم، قولہ تعالی:ما منعک أن تسجد لما خلقتُ بیديَّ، اب اہل سنت والجماعت اور ائمہ اربعہ کہتے ہیں کہ یہ صفات چوں کہ صراحةً قرآن وحدیث میں وارد ہیں اس لیے بلاشبہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہیں؛ لیکن کما یلیق بشانه، مخلوقات کی صفت کی طرح نہیں۔
صورتِ مسئولہ میں اس قسم کی آیات کے بارے میں ایک عام مسلمان کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ان صفات پر ایمان لائے اور کیفیت سے بحث نہ کرے، کیوں کہ یقیناً اللہ سبحانہ وتعالی مخلوق کے اوصاف سے منزہ اور نقص وحدوث کی علامات سے مبرا ہے ، اسی طرح اللہ کے لیے جہت ومکان کے ثابت کرنا بھی جائز نہیں ، بلکہ وہ جہت ومکانیت اور جملہ علامات حدوث سے منزہ وعالی ہے۔
عمدة القاري شرح صحیح البخاري" میں ہے:
"قال العیني: وجه ذلک أن جہة العلو لما کانت أشرف أضیف إلیہا، والمقصود علو الذات والصفات ولیس ذلک باعتبار أنه محله أو جہته تعالی اللہ عن ذلک عوا کبیرًا ."
(کتاب التوحید، باب: وکان عرشه علی الماء، وهو رب العرش العظیم، ج:25، ص:115، ط:دار إحياء التراث العربي)
منح الروض الأزہر في شرح الفقہ الأکبر میں ہے:
"قال الملا علي القاري: ومجمل الکلام وزبدة المرام أن الواجب لایشبہ الممکن - ولا یوصف بالمائیة ولا بالماہیة ولا بالکیفیة من اللون والطعم - مما ہو من صافت الجسم، ولا متمکن في مکان علو ولا سفل ولا غیرہما ۔۔۔(وله) ای للہ سبحانہ(ید ووجه ونفس)، ای کما یلیق بذاته وصفاته ."
(الباری جل شائنه لہ وجه وید بلا کیف، ص: ۱۲۰، ط: دار البشائر الإسلامیة، بیروت، لبنان)
شرح المقاصد فی علم الكلام میں ہے:
"(قال: و منها ما ورد به ظاهرالشرع وامتنع حملها على معانيها الحقيقية ) مثل الاستواء في قوله تعالى: {الرحمن على العرش استوى} واليد في قوله تعالى: {يد الله فوق أيديهم } و { ما منعك أن تسجد لما خلقت بيدي} والوجه في قوله تعالى: {و يبقى وجه ربك} والعين في قوله تعالى: {و لتصنع على عيني} و {تجري بأعيننا} فعن الشيخ أن كلا منها صفة زائدة وعن الجمهور وهو أحد قولي الشيخ أنها مجازات فالاستواء مجاز عن الاستيلاء أو تمثيل وتصوير بعظمة الله تعالى واليد مجاز عن القدرة والوجه عن الوجود والعين عن البصر فإن قيل بجملة المكونات مخلوقة بقدرة الله تعالى فما وجه تخصيص خلق آدم صلى الله عليه وسلم سيما بلفظ المثنى وما وجه الجمع في قوله بأعيننا أجيب بأنه أريد كمال القدرة وتخصيص آدم تشريف له وتكريم ومعنى تجري بأعيننا أنها تجري بالمكان المحوط بالكلاءة والحفظ والرعاية يقال فلان بمرىء من الملك ومسمع إذا كان بحيث تحوطه عنايته وتكتنفه رعايته وقيل المراد الأعين التي انفجرت من الأرض وهو بعيد وفي كلام المحققين من علماء البيان أن قولنا الاستواء مجاز عن الاستيلاء واليد واليمين عن القدرة والعين عن البصر ونحو ذلك إنما هو لنفي وهم التشبيه والتجسيم بسرعة وإلا فهي تمثيلات وتصويرات للمعاني العقلية بإبرازها في الصور الحسية وقد بينا ذلك في شرح التلخيص."
(المبحث السابع في صفات اختلف فيها، ج:2، ص:110، ط:دارالمعارف)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100900
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن