اللہ تعالٰی نے انسان کو اشرف المخلوقات کیوں بنایا ہے؟
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو کچھ ایسی نعمتیں عطا کیں ہیں جو اورمخلو قات میں سے کسی کو بھی عطا نہیں کیں، جیسے امور خلقیہ کے اعتبار سے عقل اور فہم و فراست اور حسن صورت، یہ کرامت اور عزت سوائے انسان کے کسی مخلوق کو حاصل نہیں،اور باعتبار امور اکتسابیہ کے جن کو انسان خداداد عقل اور حو اس سے حاصل کرتا ہے ،جیسے علوم حقہ اور عقائد صیحہ اور اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ، انہیں نعمتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نےانسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
" يخبر تعالى عن تشريفه لبني آدم وتكريمه إياهم، في خَلْقِه لهم على أحسن الهيئات وأكملها، كما قال تعالى (لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ) ، أي : يمشي قائماً منتصباً على رجليه، ويأكل بيديه، وغيره من الحيوانات يمشي على أربع، ويأكل بفمه، وجَعَل له سمعاً وبصراً وفؤاداً، يفقه بذلك كله وينتفع به، ويفرق بين الأشياء، ويعرف منافعها وخواصها ومضارها في الأمور الدينية والدنيوية، ورحلته في البر ، ( وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ)أي : على الدواب من الأنعام والخيل والبغال( والبَحْرِ) أيضاً على السفن الكبار والصغار،( وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ) أي : من زروع وثمار، ولحوم وألبان، من سائر أنواع الطعوم والألوان ،المشتهاة اللذيذة، والمناظر الحسنة، والملابس الرفيعة من سائر الأنواع، على اختلاف أصنافها وألوانها وأشكالها، مما يصنعونه لأنفسهم، ويجلبه إليهم غيرهم من أقطار الأقاليم والنواحي ،(وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا) أي : من سائر الحيوانات وأصناف المخلوقات."
(سورت الاسرآء،آیت نمبر :70،ج:4،ص:162،ط:مکتبہ فاروقیہ محلہ جنگی پشاور)
تفسیر کبیر میں ہے:
"قوله :( ولقد كرمنا بني آدم) واعلم أن الإنسان جوهر مركب من النفس، والبدن، فالنفس الإنسانية أشرف النفوس الموجودة في العالم السفلي، وبدنه أشرف الأجسام الموجودة في العالم السفلي. وتقرير هذه الفضيلة في النفس الإنسانية هي أن النفس الإنسانية قواها الأصلية ثلاث. وهي الإغتذاء والنمو والتوليد، والنفس الحيوانية لها قوتان الحساسة سواء كانت ظاهرة أو باطنة والحركة بالاختيار، فهذه القوى الخمسة أعني الاغتذاء والنمو والتوليد والحس والحركة حاصلة للنفس الإنسانية، ثم إن النفس الإنسانية مختصة بقوة أخرى وهي القوة العاقلة المدركة لحقائق الأشياء كما هي. وهي التي يتجلى فيها نور معرفة الله تعالى ويشرق فيها ضوء كبريائه وهو الذي يطلع على أسرار عالمي الخلق والأمر ويحيط بأقسام مخلوقات الله من الأرواح والأجسام كما هي وهذه القوة من تلقيح الجواهر القدسية والأرواح المجردة الإلهية، فهذه القوة لا نسبة لها في الشرف والفضل إلى تلك القوى النباتية والحيوانية، وإذا كان الأمر كذلك ظهر أن النفس الإنسانية أشرف النفوس الموجودة في هذا العالم ."
(سورت الاسرآء،آیت نمبر :70،ج:7،ص:382،ط:دار احیاء التراث العربی)
مولناادریس کاندھلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تفسیر معارف القرآن میں فرماتے ہیں:
" فضیلت اور فضل اس زیادتی کو کہتے ہیں کہ جو دوسرے کے لحاظ سے اس میں زیادہ ہو پس انسان باعتبار اپنی ماہیت اور حقیقت کے تمام مخلوقات سے اکرم اور افضل اور اشرف ہے جیسے عقل اور فہم و فراست اور حسن صورت، یہ کرامت اور عزت سوائے انسان کے کسی مخلوق کو حاصل نہیں اور باعتبار اخلاق کا ملہ اور اعمال فاضلہ کے بہت سی مخلوق سے افضل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان امور خلقیہ اور طبعیہ اور ذاتیہ کے اعتبار سے سب مخلوق سے زیادہ مکرم اور محترم ہے اور باعتبار امور اکتسابیہ کے جن کو انسان خداداد عقل اور حو اس سے حاصل کرتا ہے جیسے علوم حقہ اور عقائد صیحہ اور اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ اس اعتبار سے انسان اکثر مخلوقات سے افضل اور برتر ہے ۔"
(سورت الاسرآء،آیت نمبر :70،ج:4، ص:439،ط:مکتبہ لدھیانوی)
مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تفسیر معارف القرآن میں فرماتے ہیں:
"آخری آیت میں اولاد آدم کی اکثر مخلوقات پر فوقیت اور افضلیت کا ذکر ہے اسمیں دو باتیں قابل غور ہیں ۔ اول یہ کہ یہ افضلیت کن صفات اور کین وجوہ کی بنار پر ہے۔ دوسرے یہ کہ اسمیں افضلیت اکثر مخلوقات پر دنیا بیان فرمایا ہے اس سے کیا مراد ہے؟ پہلی بات کی تفصیل یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے بنی آدم کو مختلف حیثیات سے ایسی خصوصیات عطا فرمائی ہیں جو دوسری مخلوقات میں نہیں، مثلاً حسن صورت اعتدال جسم اعتدال مزان اعتدال قد و قامت جو انسان کو عطا ہوا ہے کسی دوسرے حیوان میں نہیں اسکے علاوہ عقل و شعور میں اسکو خاص امتیاز بخشا گیا ہے جس کے ذریعہ وہ تمام کائنات علویہ اور سفلیہ سے اپنے کام کھانا ہے اسکو اللہ تعالٰی نے اسکی قدرت بخشی ہے کہ مخلوقات الہیہ سے ایسے مرکبات اور مصنوعات تیار کرےجو اسکے رہنے سہنے اور نقل و حرکت اور طعام د لباس میں اسکے مختلف کام آئیں ۔ نطق و گویائی اور افہام وتفہیم کا جو مکہ کو عطا ہوا ہے وہ کسی دو تنظیم اور عطا وہ کسی دوسرے جیہ عطا ہوا ہے وہ کسی دوسرے جیوان میں نہیں اشارات کے ذریعہ اپنے دل کی بات دوسروں کو تبلا دیا تحریر اور خط کے ذریعہ دل کی بات دوسروں تک پہنچانا یہ سب انسان ہی کی امتیازات ہیں بعض علما نے فرمایا کہ ہاتھ کی انگلیوں سے کھانا بھی انسان ہی کی صفت مخصوصہ ہے اسکے سوا تمام جانور اپنے منھ سے کھاتے ہیں اپنے کھانے کی چیزوں کو مختلف اشیاء سے کر کے لذیذ اور مفید بنانے کا کام بھی انسان ہی کرتا ہے باقی سب جانور مفرد چیزیں کھاتے ہیں کوئی کچا گوشت کھاتا ہے کوئی گھاس کوئی پھل وغیرہ بہر حال سب مفردات کھاتے ہیں انسان ہی اپنی غذا کے لئے ان سب چیزوں کے مرکبات تیار کرتا ہے اور سب سے بڑی فضیلت عقل و شعور کی ہے۔ جس سے وہ اپنے خالق اور مالک کو پہچانے اور اسکی مرضی اور نا مرضی کو معلوم کر کے مرضیات کا اتباع کرے نا مرضیات سے پر ہیز کرے اور عقل و شعور کے اعتبار سے مخلوقات کی تقسیم اسطرح ہے کہ عام جانوروں میں شہوات اور خواہشات میں عقل و شعور نہیں، فرشتوں میں عقل و شعور ہے مشہوات و خواہشات نہیں، انسان میں یہ دونوں چیزیں جمع ہیں عقل و شعور بھی ہے شہوات و خواہشات بھی ہیں اسی وجہ سے جب وہ شہوات و خواہشات کو عقل و شعور کے ذریعہ مغلوب کرلیتا ہے اور ان اور اللہ تعالیٰ کی نا پسندیدہ چیزوں سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے تو اسکا مقام بہت سے فرشتوں بھی اونچا ہو جاتا ہے۔"
(سورت الاسرآء،آیت نمبر :70،ج:5،ص:506،ط:مکتبہ معارف القرآن کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101597
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن