بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 ذو الحجة 1445ھ 04 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

امانت کی رقم میں تصرف کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا


سوال

 ایک شخص کسی جگہ بابو کی ذمہ داری پر فائز ہے اور اس کے پاس فیس و دیگر مد جمع ہوتے ہیں، جس کا حساب مینیجر کو مہینہ کے آخر میں دینا ہوتا ہے، اس صورت میں پورے مہینہ تمام رقم اس کے پاس رہتی ہے ،تو اس میں سے وہ کچھ تصرف کر لے اور حساب کے وقت ملا کر پورا پورا دے دے تو کیا ایسا کرنا اس کے لینا جائز ہے؟ 

نیز رقم کی حفاظت کے لیے بینک میں رکھ دیتا ہے جس سے اس کا بھی فائدہ ہوتا ہے، جیسے بینک کا مینمم بیلینس نہیں رکھنا پڑتا ہے تو ان تمام صورتوں میں کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے پاس فیس وغیرہ کی جو رقم ہوتی ہےوہ رقم اس کے پاس امانت ہے اور امانت میں مالکان کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا شرعا جائز نہیں، اور تصرف کرنے کی صورت میں (اگر چہ بعد میں ادا کرے)مذکورہ شخص گناہ گار ہوگا، اگر اس تصرف کے بعد یہ رقم ضائع ہوجاتی ہے تو اس کا ضمان بھی لازم ہوگا، البتہ حفاظت کی خاطر یہ رقم بینک میں رکھنے سے مینمم بیلنس(کم سے کم رقم جو بینک اکاؤنٹ پر ہونی چاہیے) کا فائدہ ضمنا حاصل ہوجاتاہے، اس سے امانت پر کوئی فرق نہیں پڑےگا۔

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"‌‌كتاب الوديعة وهي أمانة إذا هلكت من غير تعد لم يضمن، وله أن يحفظها بنفسه، ومن في عياله وإن نهاه  وليس له أن يحفظها بغيرهم إلا أن يخاف الحريق فيسلمها إلى جاره، أو الغرق فيلقيها إلى سفينة أخرى، فإن خلطها بغيرها حتى لا تتميز ضمنها، وكذا إن أنفق بعضها ثم رد عوضه وخلطه بالباقي قال: (وليس له أن يحفظها بغيرهم) ; لأنه ما رضي بحفظ غيرهم، فإن الناس يتفاوتون في الأمانات وصار كالوكيل والمضارب ليس له أن يوكل ولا يضارب لما تقدم أن الشيء لا يتضمن مثله (‌وكذا ‌إن ‌أنفق ‌بعضها ثم رد عوضه وخلطه بالباقي) فهو استهلاك على الوجه الذي بينا."

(کتاب الودیعة ، ج:3، ص:26، ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌وأما ‌حكمها ‌فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني،الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن، وإن فعل شيئا منها ضمن، كذا في البحر الرائق."

(کتاب الودیعة،ج:4، ص:338، ط:دار الکتب العمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100771

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں