بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 ذو الحجة 1445ھ 04 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

امانت کا استعمال کرنا اور عاریت پر دینے کا حکم


سوال

میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں ، ماضی میں ایک شخص نے میرے پاس کچھ چیزیں امانت رکھوائیں، پھر ایک شخص نے ان امانت والی اشیاء میں سے ایک چیز مجھ سے استعمال کے لیے مانگی اور میں اس کو منع نہ کرسکا، اس نے وہ چیز کچھ عرصہ استعمال کی اور پھر میں نے وہ چیز اصل مالک کو لوٹا دی، لیکن میں اس کو یہ نہ بتا سکا کہ یہ چیز استعمال کی گئی ہے، اسی طرح کچھ امانت کے کپڑے تھے جو میں نے خود بھی استعمال کیے اور اپنے دوست کو بھی دیے، پھر مالک نے امانت لینے کے بعد ان کپڑوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا، اب مجھے پریشانی ہے، مجھے اس غلطی کے تدارک کے لیے کیا کرنا چاہیے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں امانت رکھی ہوئی ہی اشیاء میں سے کچھ کسی دوسرے کو استعمال کے لیے دینا دینا  سائل کے لیے جائز نہیں تھااور یہ امانت رکھنے والے کی حق تلفی ہے،سائل نے چوں کہ واپس کرتے وقت مالک کو نہیں بتایا اور اس سے حق تلفی کی معافی نہیں مانگی تو سائل کو اب چاہیے کہ مکمل صورتِ حال مال کو بتا کر اپنی اس حق تلفی پر ان سے معذرت کرلے اور مالک کو چاہیے کہ وہ اس پر سائل کو معاف کردے۔

اسی طرح امانت کے کپڑوں کا خود سائل کا استعمال کرنا اور دوست کو استعمال کے لیے دینا شرعا نا جائز تھا اور مالک کی حق تلفی تھی، نیز پھر باقی امانت کے ساتھ ان کپڑوں کا واپس نہ کرنا مزید خیانت ہے، سائل کے ذمہ ان کپڑوں کا لوٹانا واجب ہے، اگر وہ کپڑے اب موجود نہیں ہیں اور استعمال کی وجہ سے خراب اور ختم ہوگئے تو پھر سائل پابند ہے کہ ان کپڑوں کی قیمت مالک کو ادا کرے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن، وإن فعل شيئا منها ضمن، كذا في البحر الرائق."

(کتاب الودیعۃ، الباب الاول، ج نمبر ۴، ص نمبر ۳۳۸، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا تعدى المودع في الوديعة بأن كانت دابة فركبها أو ثوبا فلبسه أو عبدا فاستخدمه أو أودعها عند غيره ثم أزال التعدي فردها إلى يده زال الضمان، وهذا إذا كان الركوب والاستخدام واللبس لم ينقصها، أما إذا نقصها ضمن، كذا في الجوهرة النيرة."

(کتاب الودیعۃ،الباب الرابع، ج نمبر۴، ص نمبر ۳۴۷، دار الفکر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أربع من كن فيه كان منافقا خالصا، ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها: إذا اؤتمن خان، وإذا حدث كذب، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر» ". متفق عليه

إذا اؤتمن) بالبناء للمفعول أي وضع عنده ‌أمانة (خان) أي بالتصرف غير الشرعي."

(کتاب  الایمان، باب الکبائر، ج نمبر۱، ص نمبر ۱۲۸، دار الفکر)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں