بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 ذو الحجة 1445ھ 04 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

امانت کا حکم، امانت کی رقم کوخرچ کرنے کے بعد واپس کرنے کا حکم


سوال

زید نے عمرو کے پاس ایک لاکھ (۱۰۰۰۰۰) روپے امانت کے رکھوائے ،جو کے پانچ ، پانچ ہزار والے نوٹ تھے ، عمرو کے پاس اکاؤنٹ میں ایک لاکھ کی رقم موجود تھی ، عمرو نے وہ رقم جو زید نے دی تھی اِستعمال کر لی اور زید کوبوقت مطالبہ اکاؤنٹ سے نکال کر دے دی ۔تو کیا یہ جائز ہے ؟

دریافت طلب امور:1: امانت کی تعریف کیا ہے؟

2:عمرو نے اُس رقم میں سے پانچ ہزار والے نوٹ لے لیے اور ہزار اور پانچ سو والے نوٹ اُس میں رکھ کر رقم پوری کردی ، تو کیا یہ جائز ہے ؟

3:منشاء سوال یہ ہے کہ: ثمن تو متعین کرنےسے متعین نہیں ہوتا ، نیز کرنسی میں تو مالیت مطلوب ہوتی ہے ، عین کرنسی کا نوٹ مطلوب نہیں ہوتا ، جب کہ اَمانت میں تو عین شئی مطلوب ہوتی ہے ، اب یہ کرنسی امانت رکھی گئی ہے تو کیا اِس کا عین کا اِعتبار کیا جائے گا ، یا مالیت کا اِعتبار کیا جائے گا ؟

نیز عرف عام میں تو یہ بہت رائج بھی ہے کہ مالیت کا اِعتبار ہوتا ہے ، عین نوٹ کا تو بوقت واپسی کوئی بھی اَمانت رکھوانے والا مطالبہ نہیں کرتا ۔ برائے مہربانی جواب عنایت فرماکر مشکور فرمائیں۔

جواب

1:امانت کہتےہیں،کسی کواپنےمال کی حفاظت پرمقررکرنا۔

2:صورتِ مسئولہ میں عمرو کے لیے زید کی امانت رکھوائی ہوئی رقم میں اس کی اجازت کے بغیر کسی قسم کا تصرف شرعًا جائز نہ  تھا، اس تصرف کی وجہ سےعمرو،زید کے لیے اس رقم کاضامن ہوا،لیکن چوں کہ عمرو نےاس رقم کے بدلے اور رقم اداکردی،تو اس کی وجہ سےوہ ضمان سےبری ہوگیا ہے۔

3:سائل کایہ کہناکہ ثمن متعین کرنےسےمتعین نہیں ہوتا،یہ ضابطہ اتناعام نہیں ہے،جیسےسائل کاخیال ہے،بلکہ  علامہ شامی اوردیگرفقہائےکرام نےاس کی صراحت  کی ہے،ثمن کامتعین نہ ہونےکاتعلق صرف معاوضات کے ساتھ  ہےجب کہ امانت ،غصب،وکالت وغیرہ میں ثمن متعین ہوتا  ہے،جب تک امانت کی رقم بعینہ موجودہو،اسےواپس کیاجائےگا اس کےبدلےدوسری رقم واپس کرناجائزنہیں ہے۔

اگراس مسئلہ کی مزیدتفصیل درکارہو،توذیل میں دیےگئےحوالہ جات  سےاستفادہ کرسکتےہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسيرها شرعا فالإيداع هو تسليط الغير على حفظ ماله الوديعة ما يترك عند الأمين."

(كتاب الوديعة، الباب الأول،ج:4، ص:338، ط:دار الفكر)

الدرالمختارمیں ہے:

"هو) لغة: من الودع أي الترك وشرعا (تسليط الغير على حفظ ماله صريحا أو دلالة) كأن انفتق زق رجل فأخذه رجل بغيبة مالكه ثم تركه، ضمن لأنه بهذا الأخذ التزم حفظه دلالة بحر (الوديعة ما تترك عند الأمين) وهي أخص من الأمانة."

(كتاب المضاربة، كتاب الإيداع، ج:5، ص:662، ط:دار الفكر)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"وإذا ‌أنفق الوديعة، ثم رد مثلها في مكانها، فقد اختلف الفقهاء في تضمينه:فقال الحنفية: إن ردها بعينها لم يضمن، وإن رد مثلها ضمن."

(إتلاف الوديعة، ج:43، ص:58، ألناشر:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وعدم تعين النقد ليس على إطلاقه، بل ذلك في المعاوضات وفي العقد الفاسد على إحدى الروايتين، وفي المهر: ولو بعد الطلاق قبل الدخول، وفي النذر والأمانات والهبة والصدقة والشركة والمضاربة والغصب والوكالة قبل التسليم أو بعده، ويتعين في الصرف بعد هلاكه وبعد هلاك المبيع وفي الدين المشترك فيؤمر برد نصف ما قبض على شريكه وفيما إذا تبين بطلان القضاء بأن أقر بعد الأخذ أنه لم يكن له على خصمه شيء فيرد عين ما قبض لو قائما."

(كتاب البيوع، مطلب في بيان الثمن والمبيع والدين، ج:5، ص:153،ط:دار المعرفة)

وفيه ايضا:

"لأن مال ‌الأمانة ‌يتعين بالتعيين."

(كتاب الوكالة، ‌‌باب الوكالة بالخصومة والقبض،ج:5، ص:535، ط:دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أن الثمن لو كان قائما في يد الأمين كان متعينا."

(كتاب المحاضر والسجلات، محضر فيه دعوى ثمن أشياء أرسل المدعي إلى المدعى عليه ليبيعها،ج:6، ص:240، ط:دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو تبايعا عينا بفلوس بأعيانها بأن قال: بعت منك هذا الثوب أو هذه الحنطة بهذه الفلوس جاز ولا يتعين، وإن عينت بالإشارة إليها حتى كان للمشتري أن يمسكها، ويرد مثلها، ولو هلكت قبل القبض لا يبطل البيع؛ لأنها وإن لم تكن في الوضع ثمنا فقد صارت ثمنا باصطلاح الناس، ومن شأن الثمن أن لا ‌يتعين ‌بالتعيين."

(كتاب البيوع، فصل في حكم البيع، ج:5، ص:236، ط:دارالكتب العلمية)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"وإن ‌كانت ‌الوديعة ‌قائمة ‌بعينها ‌وهي ‌مائة ‌درهم ‌فصالحه ‌منها ‌على ‌مائة ‌درهم ‌بعد ‌إقرار ‌أو ‌إنكار ‌لم ‌يجز ‌إذا ‌قامت ‌البينة ‌على ‌الوديعة؛ ‌لأنها ‌عين ‌في ‌يد ‌المودع ‌فيكون ‌الصلح ‌عنها ‌معاوضة، ‌ومعاوضة ‌المائة ‌بالمائتين ‌باطل، ‌ولا ‌يمكن ‌تصحيحه ‌بطريق ‌الإبراء ‌والإسقاط؛ ‌لأن ‌العين ‌لا ‌تحتمل ‌ذلك."

(كتاب الصلح، باب الصلح في العارية الوديعة، ج:21، ص:62، دار المعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144511101718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں