میں امازون میں ڈراپ شپنگ کا کام کرتا ہوں، اور دبئی میں چیزیں فروخت کرتا ہوں اور اس کی تفصیل یہ ہے:
1۔ میں سب سے پہلے ایمازون میں اپنا اسٹور بنا تا ہوں ۔
2۔ اس کے بعد ایک اور ویب سائٹ سے مختلف چیزیں منتخب کر کے اپنے ایمازون اسٹور میں فروخت کرنے کے لیے پیش کرتا ہوں۔
3۔ اس ویب سائٹ میں اگر کسی چیز کی قیمت 10 درہم ہے، تو اس میں مزید 15 درہم ایمازون کی فیس (فروخت ہونے کی صورت میں)، پھر اس کے بعد میں اپنا منافع مثلاً پانچ درہم،کل ملاکر اس چیز کی قیمت اپنے اسٹور میں 30 درہم مقرر کردیتا ہوں۔
4۔لوگ میرے ایمازون اسٹور میں آتے ہیں اور چیز پسند کرکے پھر آرڈر کرتے ہیں۔(نیز اس آرڈر کے بعد ہمیں فوری طور پر اس چیز کی قیمت وصول نہیں ہوتی، بلکہ گاہک کے چیز کو وصول کرنے کے بعد اس چیز کی قیمت ہمیں ایمازون کی جانب سے ملتی ہے)
5۔پھر جس ویب سائٹ سےمیں نے اپنے ایمازون اسٹور پر وہ چیز فروخت کے لیے پیش کی تھی، اسی ویب سائٹ میں جاکر میں اس چیز کی قیمت ادا کرتاہو ، اور اس ویب سائٹ والے کو میں اپنے آرڈر کنندہ کا پتہ وغیرہ تمام تفصیلات بھی بتا تاہوں، لہذا وہ اس چیز کا پارسل آرڈر کنندہ کے نام پر تیار کرکے رکھ لیتا ہے۔
6۔ اس کے بعد ایمازون کا رائیڈر/نمائندہ اسی کمپنی کے گودام سے مذکورہ پارسل وصول کرکے آرڈر کنندہ تک پہنچا دیتا ہے۔
سوال یہ ہے اس پورے معاملہ میں میں نے مذکورہ چیز پر باقاعدہ قبضہ نہیں کیا ، تاہم میں ایمازون کو فیس ادا کرتا ہوں، تو ایمازون کا رائیڈر میری جانب سے وکیل شمار ہوگا یا نہیں؟لہذا اس کا قبضہ کافی ہوگا یا نہیں؟ نیز اگر یہ صورت جائز نہیں تو اس کی جواز کی کیا صورت ہوگی؟
وضاحت : ایمزون سے جو ابتداء میں معاملہ ہوتا ہے اس میں یہ بات طے ہوتی ہے کہ سامانِ تجارت کی تشہیر ، اس کو بیچنا اور اس کو وصول کر کے خریدار کو پہنچانا ایمزون کی ذمہ داری ہے اس کے عوض ایمزون اجرت لیتا ہے۔
صورت مسئولہ میں سائل کے کام کا مذکورہ طریقہ کہ سائل سب سے پہلے ایمزون سے یہ معاہدہ کرتا ہے کہ ایمزون سائل کا آن لائن اسٹور ایمزون کے پلیٹ فارم پر چلائے گا اور ایمزون سائل کے سپلائر سے سامان بھی وصول کرے گا اور سائل ان دونوں کاموں پر ایمزون کو اجرت دے گا، پھر اس معاہدہ کے بعد سائل ایک ویب سائٹ پر موجود سامان تجارت کو اپنے ایمزون پیج پر بیچنے کے لیے پیش کرے گا اور اس کی قیمت میں اپنا خرچہ اور نفع شامل کرے گا اور پھر ایمزون پر آرڈر ملنے کے بعد وہ چیز اس ویب سائٹ سے خرید کر اور ادائیگی کر کے ایمزون کے رائڈر (ڈلوری کی خدمت دینے والا شخص) کے ذریعہ وصول کرے گا اور پھر خریدار کو پہنچا دے گا اور اس پر ایمزون کو ایمزون کی خدمات (بِکری اور ڈلوری میں مدد ) کا عوض دے گا، سائل کا یہ معاملہ شرعا درست ہے اور سائل کے لیے اس طرح نفع کمانا حلال ہے؛کیوں کہ سائل جو ابتداء میں خریدار سے آڈر لیتا ہے، وہ شرعا بیع (خرید و فروخت ) نہیں بلکہ وعدہ بیع (خرید و فروخت کا وعدہ ) ہے، لہذا اس وقت ملکیت اور قبضہ دونوں ضروری نہیں تھا اور پھر جب سائل دوسری ویب سائٹ سے سامان خریدتا ہے اور ایمزون کا رائڈر سائل کے حکم سے قبضہ کر کے وصول کر لیتا ہے تو ایمزون کے رائڈر کے وصول کرنے سے سائل کی ملکیت اور قبضہ ثابت ہوجاتا ہے اور خریدار کو ڈلوری کے وقت بیع (سائل اور خریدار کے درمیان خرید و فروخت کا معاملہ منعقد ) ہوجاتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ سائل ایمزون کے رائڈر کو مبیع قبضہ کرکے آگے پہنچانے کا وکیل بنا دے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وأما ركنه فنوعان أحدهما الإيجاب والقبول والثاني التعاطي وهو الأخذ والإعطاء كذا في محيط السرخسي."
(کتاب البیوع، باب اول، ج نمبر ۳، ص نمبر ۴، دارالفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"قال أصحابنا رحمهم الله كل لفظين ينبئان عن التمليك والتملك على صيغة الماضي أو الحال ينعقد بهما البيع كذا في المحيط فارسية كانت أو عربية أو نحوهما هكذا في التتار خانية وينعقد بالماضي بلا نية وبالمضارع بها على الأصح كذا في البحر الرائق فإذا قال البائع أبيع منك هذا العبد بألف أو أبذله أو أعطيكه وقال المشتري أشتريه منك أو آخذه ونويا الإيجاب للحال أو كان أحدهما بلفظ الماضي والآخر بالمستقبل مع نية الإيجاب للحال فإنه ينعقد وإن لم ينو لا ينعقد هكذا في القنية وأما ما تمحض للحال كأبيعك الآن فلا يحتاج إليها وأما ما تمحض للاستقبال كالمقرون بالسين وسوف أو الأمر فلا ينعقد به إلا إذا دل الأمر على المعنى المذكور كخذه بكذا فقال أخذته فإنه كالماضي كذا في النهر الفائق سئل أبو الليث الكبير عمن قال لآخر خذ هذا الثوب بعشرة فقال أخذت ثم البائع قال لا أعطيك قال ليس له ذلك وكذلك المشتري ليس له أن يمتنع بعد قوله أخذت كذا في المحيط ثم إذا كان بلفظ الأمر فلا بد من ثلاثة ألفاظ كما إذا قال البائع اشتر مني فقال اشتريت فلا ينعقد ما لم يقل البائع بعت أو يقول المشتري بع مني فيقول: بعت فلا بد من أن يقول ثانيا: اشتريت كذا في السراج الوهاج."
(کتاب البیوع، باب ثانی، ج نمبر ۳، ص نمبر ۴، دارالفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو اشترى دهنا ودفع القارورة إلى الدهان وقال للدهان ابعث القارورة إلى منزلي فبعث فانكسرت في الطريق قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل - رحمه الله تعالى - إن قال للدهان ابعث على يد غلامي ففعل فانكسرت القارورة في الطريق فإنها تهلك على المشتري ولو قال ابعث على يد غلامك فبعثه فهلك في الطريق فالهلاك يكون على البائع لأن حضرة غلام المشتري تكون كحضرة المشتري وأما غلام البائع فهو بمنزلة البائع كذا في فتاوى قاضي خان فإن قال المشتري للبائع زن لي في هذا الإناء كذا وكذا وابعث به مع غلامك أو قال مع غلامي ففعل فانكسر الإناء في الطريق قال هو من مال البائع حتى يقول ادفعه إلى غلامك أو قال إلى غلامي فإذا قال ذلكفهو وكيل فإذا دفعه إليه فكأنه دفعه إلى المشتري فيكون الهلاك عليه كذا في المحيط. .
إذا قال المشتري للبائع ابعث إلى ابني واستأجر البائع رجلا يحمله إلى ابنه فهذا ليس بقبض والأجر على البائع إلا أن يقول استأجر علي من يحمله فقبض الأجير يكون قبض المشترى إن صدقه أنه استأجر ودفع إليه وإن أنكر استئجاره والدفع إليه فالقول قوله كذا في التتارخانية."
(کتاب البیوع ،باب رابع، ج نمبر ۳، ص نمبر ۱۹، دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605101936
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن