بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

امیر اور غریب کا قربانی کا جانور خریدنے کے بعد ہلاک یا گم ہوجائے تو دوسرے جانور کی قربانی کا حکم


سوال

میں نے کسی شخص سے سنا مسئلہ بیان کرتے ہوئے کہ :

”اگر کسی غریب شخص (جو صاحب نصاب نہ ہو اور اس پر قربانی واجب نہ ہو ا) نے  قربانی کا جانور خریدا اور ابھی قربانی کے ایام نہیں آئے تھے کہ وہ جانور ہلاک ہو گیا یا بھاگ گیا تو ایسی صورت میں اس پر لازم ہے کہ وہ دوسرا جانور خرید لے اور قربانی کر لے اور اگر دوسرا جانور خرید لیا اور پہلا جانور بھی مل گیا ہے اس پر دونوں جانور قربان کرنا لازم ہوں گے ۔“

کیا یہ مسئلہ درست ہے ؟

اسی شخص نے یہ بات بھی کہی کہ :

”اگر امیر شخص نے قربانی کا جانور خریدا اور وہ قربانی کے ایام سے پہلے ہلاک ہو گیا ہے یا بھاگ گیا  تو اس امیر شخص پر دوسرے  جانور کی  قربانی کرنا لازم نہیں ہوگی۔“

کیا یہ مسئلہ درست ہے؟

جواب

 سوال میں جو مسائل ذکر کیے ہیں وہ درست نہیں ہیں، درست مسئلہ اس کا عکس ہے، جو  درج ذیل ہیں:

1:   جس  شخص پر قربانی واجب نہیں تھی اور اس نے قربانی کے لیے جانور خریدا اور وہ ہلاک ہوگیا یا گم ہوگیا تو  اس پر  دوبارہ  قربانی کے لیےجانور خریدنا یا قربانی کے جانور میں حصہ ملانا لازم نہیں ہے،اس لیے کہ   اس  کے حق میں یہی جانور متعین تھا، جب یہ ہلاک ہوگیا یا گم ہوگیا تو اس کے ذمہ  بری ہوگیا،   اور اگر اس نے دوسرا جانور خرید لیا تو پھر وہ دوسرا جانور ذبح کرنا اس پر لازم  ہوجائے گا، ایسی صورت میں اگر پہلا جانور دوبارہ مل جاتا ہے تو  چوں کہ یہ دونوں جانور متعین ہوگئے تھے، اس لیے اس کے ذمہ دونوں جانور ذبح کرنا لازم ہوں گے۔ البتہ اگر پہلے جانور کے گم ہوجانے پر  مذکورہ شخص  نے جو  دوسرا جانور خریداتھا ، اس میں  یہ نیت کی تھی  کہ اس کو  پہلے جانور کے بدلے میں خرید رہاہوں  تو اس صورت میں اگر پہلا جانور بھی مل جائے تو ان دونوں میں سے ایک کی قربانی کافی ہوگی۔

2:  جس شخص پر قربانی واجب تھی ،اس  نے قربانی کے لئے جانورخریدا اور وہ جانورقربانی سے  پہلے ہلاک ہوگیا یا گم ہوگیاتواس صورت میں اس شخص پر دوسری قربانی کرناواجب ہے، اس لیے اس کے ذمہ جانور متعین نہیں تھا، بلکہ صاحب ِ نصاب ہونے کی وجہ سے  قربانی لازم تھی، جو ادا نہیں ہوئی، اب اگر وہ دوسرا جانور خریدتا ہے اور پہلا بھی مل جاتا ہے تو  وہ ان دونوں میں کسی بھی ایک کو قربانی میں ذبح کرسکتا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو اشترى شاة للأضحية وهو معسر أو كان موسرا فانتقص نصابه بشراء الشاة ثم ضلت فلا شيء عليه ولا يجب عليه شيء آخر؛ أما الموسر فلفوات شرط الوجوب وقت الوجوب وأما المعسر فلهلاك محل إقامة الواجب فلا يلزمه شيء آخر."

(كتاب التضحية، فصل في أنواع كيفية الوجوب، 5/ 66، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله فعلى الغني غيرها لا الفقير) أي ولو كانت الميتة منذورة بعينها لما في البدائع أن المنذورة لو هلكت أو ضاعت تسقط التضحية بسبب النذر، غير أنه إن كان موسرا تلزمه أخرى بإيجاب الشرع ابتداء لا بالنذر ولو معسرا لا شيء عليه أصلا."

(كتاب الأضحية،  6/ 326، ط: سعید)

المحیط البرہانی میں ہے:

"ذكر الزعفراني في أضاحيه: رجل اشترى أضحية، فأوجبها للأضحية فضلت عنه، ثم اشترى مثلها، وأوجبها أضحية، ثم وجد الأولى قال: إن كان أوجب الأخرى إيجاباً مستأنفاً، فعليه أن يضحي بهما، وإن كان أوجبها بدلاً عن الأولى، فله أن يذبح أيهما شاء، ‌ولم ‌يفصل ‌بين ‌الغني ‌والفقير."

(‌‌كتاب الأضحية،‌‌ الفصل الثاني في وجوب الأضحية بالنذر، 6 / 87، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ محمودیہ میں  ہے:

”سوال: 

زید نے قربانی کے لیے ایک جانور خریدا جو کہ قربانی سے پہلے کھو گیا ،  اس نے دوسراخرید لیا ، پھر پہلا بھی مل گیا ، تو اس پر دونوں کی قربانی واجب ہے یا ایک کی ، یا اس میں امیر غریب  کا کچھ فرق ہے ؟

جواب:

اگر زید مالدار ہے کہ اس پر قربانی واجب ہے تو ایسی صورت میں اس پر ایک کی قربانی واجب ہے ، اگروہ غریب ہے تو اس پر دونوں کی قربانی واجب ہوگی، ہاں اگر اس نے دوسرا جانور خریدتے وقت یہ نیت کی ہے کہ پہلا جانور جوگم ہوا ہے اس  کی جگہ پر خریدتا ہوں، تو اس پر ایک ہی کی قربانی واجب ہوگی۔فقط واللہ اعلم۔“

(کتاب الاضحیۃ، باب من یجب علیہ الاضحیۃ و من لا یجب، ج : 17، ص :316، ط:دارالافتاءجامعہ فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608100912

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں