سوال یہ ہے کہ ایک صاحب نے انتقال سے پہلے اپنی جائیداد اپنے اولاد میں تقسیم کر لی تھی اور ایک مکان مسجد اور مدرسے کے لئے وقف کر دیا تھا انتقال کے بعد ایک مکان رہ گیا ہے جو انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اعمال دعوت کے لیے مختص کیا تھا یعنی دعوت وتبلیغ کے لیے اور اسی مکان کے اوپر کا حصہ کرایہ پر دیا ہے جس کے کرایہ کی وصیت انہوں نے مسجد و مدرسے میں لگانے کی کی ہے،اس صورت میں شریعت کا کیاحکم ہے؟ آیا یہ میراث ہے یا وصیت ہی رہے گا؟
صورتِ مسئولہ میں عملی طور پر اعمال دعوت کے لیے مختص کرنے کی وجہ سے مذکورہ گھر وقف نہیں ہوا، بلکہ یہ میرات شمار ہوگا البتہ مکان کے اوپر کے حصہ کے کرایہ کی وصیت کرنا درست ہے، لہذا جب تک یہ گھر قابل انتفاع ہے، اس کا کرایہ مسجد و مدرسہ میں لگایا جائے گا۔
البحر الرائق میں ہے:
"وأما ركنه فالألفاظ الخاصة الدالة عليه وهي ستة وعشرون لفظا الأول أرضي هذه صدقة موقوفة مؤبدة على المساكين ۔۔۔۔۔۔ الخ."
(کتاب الوقف، ركن الوقف، ج:5، ص:205، ط:دار الكتاب الاسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(صحت الوصية بخدمة عبده وسكنى داره مدة معلومة وأبدا)
(قوله صحت الوصية بخدمة عبده وسكنى داره) أي لمعين. قال المقدسي: ولو أوصى بغلة داره أو عبده في المساكين جاز،
(قوله مدة معلومة وأبدا) وإن أطلق فعلى الأبد."
(کتاب الوصایا، باب الوصية بالخدمة والسكنى والثمرة، ج:6، ص:691، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607100143
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن