اناج(غلّہ) کے سیزن میں غلّہ کا ریٹ 2 ہزار کے آس پاس رہتا ہے اور اس کے بعد فصل ختم ہونے پر 5،6 مہینہ بعد ریٹ 3 ہزار کے آس پاس چلا جاتا ہے، اگر ہم فصل کے موقع پر سستے داموں میں غلّہ لےکر اسٹاک لگاکر کچھ مہینوں کے بعد اپنا غلّہ اونچے داموں میں بیچے تو کیا یہ جائز ہے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ جن چیزوں میں درج ذیل صفات پائی جائیں ان کی ذخیرہ اندوزی منع ہے:
(1) وہ چیز عرف عام میں انسان یا جانور کی غذا کے طور پر استعمال ہوتی ہو۔
(2) یہ اشیاء ایسے مقامات سے خریدی گئی ہوں جن کی پیداوار اس شہر میں آتی ہو۔
(3) ان کو ذخیرہ کرنے میں شہر والوں کو نقصان پہنچتا ہو۔
اگر کسی چیز کی عام لوگوں کو ضرورت ہو اور اسے ذخیرہ کرنے کے نتیجے میں وہ چیز آسانی سے نہ ملے جس کی وجہ سے عام لوگوں کو پریشانی لاحق ہو یا وہ اتنی مہنگی ہوجائے کہ عام لوگوں کے لیے عرفاً ضرر (نقصان) کا باعث ہو کہ عام لوگ اس کو پھر باآسانی خرید نہ سکتے ہوں ایسی صورت میں اس چیز کو ذخیرہ کرنا درست نہیں ہوگا۔
اور اگر کوئی شخص ذخیرہ اندوزی یا عام لوگوں کو ضرر پہنچانے کی نیت کے بغیر غلہ خرید کر رکھ لیتا ہے اور مارکیٹ میں وہ غلہ مناسب قیمت پر مل رہا ہے تو یہ ممنوع ذخیرہ اندوزی میں شامل نہیں ہوگا۔اسی طرح اگر کوئی بڑا شہر ہے کہ جس میں کوئی شخص غلہ وغیرہ لے کر محفوظ کرلیتا ہے اور اس کے غلہ ذخیرہ کرنے سے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچتا تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہوگا۔ نیز مذکورہ شرائط مفقود ہونے کی صورت میں (یعنی غذا اور غلہ کے علاوہ) دیگر اشیاء کو خرید کر رکھ لینا بھی ممنوعہ ذخیرہ اندوزی میں داخل نہیں ہے۔
لہذا صورت ِ مسئولہ میں اگر سائل سیزن میں غلہ کم قیمت پر خرید کر ذخیرہ کرکے رکھ لیں اور مارکیٹ میں بھی غلہ مناسب قیمت مل رہا ہو اور اس ذخیرہ اندوزی سے لوگوں کو نقصان نہ ہو تو شرعاً ایسا کرنا جائز ہوگا ورنہ نہیں ۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله) لحديث «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره.
(قوله: وكره احتكار قوت البشر) الاحتكار لغةً: احتباس الشيء انتظارا لغلائه والاسم الحكرة بالضم والسكون كما في القاموس، وشرعاً: اشتراء طعام ونحوه وحبسه إلى الغلاء أربعين يوماً لقوله عليه الصلاة والسلام: «من احتكر على المسلمين أربعين يوما ضربه الله بالجذام والإفلاس». وفي رواية: «فقد برئ من الله وبرئ الله منه». قال في الكفاية: أي خذله والخذلان ترك النصرة عند الحاجة اهـ وفي أخرى: «فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لايقبل الله منه صرفاً ولا عدلاً». الصرف: النفل، والعدل الفرض، شرنبلالية عن الكافي وغيره. وقيل: شهراً. وقيل: أكثر. وهذا التقدير للمعاقبة في الدنيا بنحو البيع وللتعزير لا للإثم؛ لحصوله. وإن قلت: المدة وتفاوته بين تربصه لعزته أو للقحط والعياذ بالله تعالى! در منتقى، مزيداً، والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد، وعليه الفتوى، كذا في الكافي، وعن أبي يوسف: كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار، وعن محمد الاحتكار في الثياب، ابن كمال.
(قوله: كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخناً لا عسلاً وسمناً، در منتقى (قوله: وقت) بالقاف والتاء المثناة من فوق الفصفصة بكسر الفاءين وهي الرطبة من علف الدواب اهـ ح وفي المغرب: القت اليابس من الإسفست اهـ ومثله في القاموس، وقال في الفصفصة: بالكسر هو نبات فارسيته إسفست، تأمل (قوله: في بلد) أو ما في حكمه كالرستاق والقرية، قهستاني (قوله: يضر بأهله) بأن كان البلد صغيراً، هداية".
(کتاب الحظر والإباحة،فصل فی البیع،ج:6،ص:398،سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144610100741
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن