1948 میں انگریز کا قانون یہ تھا کہ اگر کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے اور اس کی وراثت جو ہے وہ باقی رہتی ہے تو وہ میراث نرینہ وارثوں کو ملے گا لیکن بیٹی کو نہیں ملے گی، اگر بیٹے اس کے نہیں ہوتے تو پھر بیٹی کو نہیں ملے گا بلکہ اس کے اجداد کو ملے گا، اب ایک لڑکی کی شادی ہو گئی اور اس کو وہ میراث نہیں ملی بلکہ ان کے اجداد جو تھے ان کو ملی جیسے چچا وغیرہ ، اب وہ عورت 1994 میں فوت ہو گئی ہے اور اس کے جو ورثاء ہیں یعنی شوہر اور اس کے بیٹے وہ ان حضرات سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ یہ میراث تو ہماری والدہ کی ہے، لہذا شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے اس کے بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔
ملاحظہ:ریاست سوات میں اس طرح کا واقعہ ہوا تھا۔
صورتِ مسئولہ میں اگر کسی دستور یا عوامی رواج کی وجہ سے زمینوں کو مردوں کے نام کیا گیا ہو تویہ دستور اور عوامی رواج قرآن وحدیث کے احکام سے متصادم ہونے کی وجہ سے اس پر کسی بھی طرح عمل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کی وجہ سے کسی کا حق پامال کیا جائےگا، نیز ایسے دستور میں علاقائی زمینوں کو صرف مردوں کے نام کرنے سے وہ مردوں کی ملکیت بھی شمار نہیں ہوگی، لہذا ہر شخص پر ضروری ہے کہ وہ میراث میں مستحق خواتین کو اپنا شرعی حصّہ دے، ورنہ آخرت میں عنداللہ ماخوذ ہوگا، اور اس وقت حصّہ دینا آسان نہ ہوگا۔
چوں کہ قرآن وحدیث کے احکام کی رُوسے میراث میں نرینہ اولاد کی طرح زنانہ اولاد بھی حقدار ہے، لہذا اگر کوئی خاتون انتقال کرچکی ہے، اور اس کی زندگی میں اس کو شرعی حصّے کے تناسب سے حصّہ نہیں دیا گیاتو مذکورہ خاتون کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء حقدار ہونے کی وجہ سےدیگر ورثاء سے اپنی والدہ کے میراث کا مطالبہ کرسکتے ہیں، اور دیگر ورثاء پر بھی لازم ہے مرحومہ کا میراث میں جتنا حق بنتا ہے وہ ان کے ورثاء کے حوالے کرے، ورنہ عنداللہ ماخوذ ہوں گے، اور آخرت میں حساب دینا آسان بھی نہیں ہوگا۔
حدیث شریف میں ہے:
"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".
( مشکوۃ المصابیح، باب الغصب والعاریة، ج:1، ص:254، ط: قدیمی كتب خانه)
ترجمہ:حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین بھی از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پرڈالی جائے گی۔
فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:
"القضاء مظهر لا مثبت ويتخصص بزمان ومكان وخصومة حتى لو أمر السلطان بعد سماع الدعوى بعد خمسة عشر سنة فسمعها لم ينفذ.قلت: فلا تسمع الآن بعدها إلا بأمر إلا في الوقف والإرث ووجود عذر شرعي وبه أفتى المفتي أبو السعود فليحفظ
(قوله: القضاء مظهر لا مثبت) لأن الحق المحكوم به كان ثابتا والقضاء أظهره والمراد ما كان ثابتا ولو تقديرا كالقضاء بشهادة الزور كما مر بيانه في تعريف القضاء عن ابن الغرس. مطلب القضاء يقبل التقييد والتعليق
(قوله: إلا في الوقف والإرث ووجود عذر شرعي) استثناء الإرث موافق لما مر عن الحموي ولما في الحامدية عن فتاوى أحمد أفندي المهمنداري مفتي دمشق أنه كتب على ثلاثة أسئلة أنه تسمع دعوى الإرث ولا يمنعها طول المدة".
(کتاب القضاء، فروع القضاء مظهر لا مثبت ويتخصص بزمان ومكان وخصومة، ج:5، ص:419، ط:ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101252
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن