بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

آپ میرے لیے میری ماں بہن کی طرح ہو، آپ مجھ پر طلاق ہو، میں نے آپ کو طلاق دی ہے


سوال

زيد نے اپنی بیوی کو لڑائی کے دوران  یہ الفاظ کہے : "آپ میرے لیے میری ماں بہن کی طرح ہو، آپ مجھ پر طلاق ہو، میں نے آپ کو طلاق دی ہے۔"

مذکورہ بالا الفاظ شوہر پانچ مجالس میں کہہ چکا ہے، اور ہر بار رجوع کر لیتا ہے کہ "میں غصہ  کی حالت میں تھا، اور طلاق نہیں دینا چاہتا تھا" مذکورہ صورتحال میں کیا طلاق ہوگئی ہے، یا   نکاح برقرار ہے؟

جواب

 واضح  رہے  کہ طلاق عموما غصہ میں ہی  دی جاتی ہے،  اور طلاق کے صریح الفاظ شوہر کی نیت کے محتاج نہیں ہوتے، لہذاصورت مسئولہ میں مسمی زيد  نے جو  الفاظ  اپنی بیوی کو کہے ہیں کہ : "آپ میرے لیے میری ماں بہن کی طرح ہو، آپ مجھ پر طلاق ہو،  میں نے آپ کو طلاق دی ہے " إن تین جملوں میں سے پہلا جملہ " آپ میرے لیے میری ماں بہن کی طرح ہو " اگر  طلاق کی نیت سے کہا تھا تو اس سے پہلی طلاق واقع ہوگی، جبکہ آخری دنوں جملوں سے دوسری اور تیسری طلاق واقع ہوگی، اور بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی،  البتہ اگر پہلا جملہ طلاق کی نیت سے نہ کہا ہو بلکہ ظہار کی نیت سے کہا ہو، تو آخری دونوں جملوں  سے دو طلاق رجعی واقع ہو جائیں گی، تاہم  ظہار کا کفارہ ادا کرنا ضروری ہوگا، یعنی مسلسل دو ماہ روزے رکھے جائیں، یا ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کفارہ کے طور پر کھلایا جائے۔

اور اگر پہلا جملہ طلاق یا ظہار کی نیت سے نہ کہا ہو، تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، البتہ آخری دو جملوں سے دو طلاق رجعی واقع ہوجائیں گی، اور  شوہر کے لیے بیوی سے رجوع کرنا جائز ہوگا، (جیسا کہ مذکورہ جملے کہنے کے بعد شوہر نے رجوع کر بھی لیا تھا)، اور آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا حق تھا، پس  رجوع کے بعد جب مسمی زيد نے مذکورہ تینوں جملے  اپنی بیوی کو دوسری مرتبہ کہے تو اس سے بیوی پر تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی ہے، اور بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،  شوہر کے لیے بیوی سے رجوع کرنا یا دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا،  پس بیوی اپنی عدت (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو،  اور ماہواری آتی ہو،  اور ماہواری نہ آتی ہو تو مکمل  تین ماہ ، اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک)گزارنے کے بعد کسی اور شخص سے نکاح کرنے میں آزاد ہوگی،  نکاح اور وظیفہ زوجیت کی ادائیگی کے بعد اگر دوسرا شوہر اسے طلاق دے دے،  یا بیوی خود شوہر سے طلاق یا خلع حاصل کرلے،  یا دوسرے شوہر کا انتقال ہو جائے،  جس کی عدت مکمل ہوجائے تو،  مسمی زيد کے لیے اپنی سابقہ بیوی سے دوبارہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔

فتح الباري بشرح صحيح البخاري" میں ہے:

"وقال إن طلاق الناس غالبا إنما هو في حال الغضب ... ولو جاز عدم وقوع طلاق الغضبان لكان لكل أحد أن يقول فيما جناه كنت غضبانا."

(قوله باب الطلاق في الإغلاق والكره والسكران والمجنون وأمرهما والغلط والنسيان في الطلاق والشرك وغيره، ٩ / ٣٨٩، ط: دار المعرفة - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإن نوى بأنت علي مثل أمي) ، أو كأمي، وكذا لو حذف علي خانية (برا، أو ظهارا، أو طلاقا صحت نيته) ووقع ما نواه لأنه كناية

(قوله: لأنه كناية) أي من كنايات الظهار والطلاق. قال في البحر: وإذا نوى به الطلاق كان بائنا كلفظ الحرام، وإن نوى الإيلاء فهو إيلاء عند أبي يوسف، وظهار عند محمد. والصحيح أنه ظهار عند الكل لأنه تحريم مؤكد بالتشبيه. اهـ. ونظر فيه في الفتح بأنه إنما يتجه في " أنت علي حرام كأمي "، والكلام في مجرد أنت كأمي اهـ أي بدون لفظ " حرام ". قلت: وقد يجاب بأن الحرمة مرادة وإن لم تذكر صريحا. هذا، وقال الخير الرملي: وكذا لو نوى الحرمة المجردة ينبغي أن يكون ظهارا، وينبغي أن لا يصدق قضاء في إرادة البر إذا كان في حال المشاجرة وذكر الطلاق. اهـ."

(باب الظهار، ٣ / ٤٧٠، ط: دار الفكر)

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

"٦٥٩٠: وفي الظهيرية: ومتى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء كقوله يا مطلقة أنت طالق ... ٦٥٩٥: ... وفي الحاوي: ولو قال ترا يك طلاق يك طلاق يك طلاق! بغير العطف وهي مدخول بها تقع ثلاث تطليقات."

 (كتاب الطلاق، الفصل الرابع، فيما يرجع إلى صريح الطلاق، ٤ / ٤٢٧ - ٤٢٩، ط: مكتبة زكريا بدیوبند - الهند)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."

(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة ١ / ٤٧٠، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ٣ / ١٨٧، ، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144603101788

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں