بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

میں نے تمہیں آزاد کیا کہنے طلاق کا حکم


سوال

میں اور میری بیوی ایک دن ساتھ بیٹھے تھے اور میں نے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا کہ مجھے دوسری شادی کرنے دو وہ ناراض ہو گئی اور مجھ سے کہا کہ یہ الفاظ نہ کہوں، کیونکہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے اور مجھے کسی کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتی ،میں نے ہنسی مذاق میں اسے کہا تم دونوں سے پیار کروں گا ،اس نے ناراض ہو کر مجھ سے کہا کہ اگر میرا دوسری شادی کرنے کا کوئی ارادہ ہے تو اسے چھوڑ دو اور دوسری شادی کر لو، میں نے مذاق کیا کہ " میں نے تمہیں آزاد کیا "میں نے یہ سطریں 5 سے 6 بار دہرائیں اس نے مجھ سے پوچھا میں یہ کس سے کہہ رہا ہوں ؟میں نے اس سے کہا میں یہ آپ سے کہہ رہا ہوں، اس کے بعد وہ پریشان ہو گئی اور کہنے لگی کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے اور یہ مذاق نہیں ہے اور ہمیں کسی مفتی صاحب سے مشورہ کرنا چاہیے لیکن میں نے اسے کہا کہ اس میں کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میری سمجھ کے مطابق اعمال نیتوں کے مطابق ہوتے ہیں لیکن وہ کہتی رہی کہ ہمیں یہ پوچھنا چاہیے تو برائے مہربانی قرآن و حدیث کے مطابق رہنمائی فرمائیں کہ ہماری شادی کی کیا حیثیت ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ لفظِ آزاد وقوعِ طلاق کے اعتبار سے صریح ہے،  یعنی لفظِ  آزاد سے دی گئی طلاق نیت کے بغیر ہی  واقع ہو جائے گی، جیسا کہ صریح کا حکم ہے، جب کہ لحوق کے اعتبار سے بائن ہے،  یعنی لفظ 'آزاد"سے ایک طلاق بائن واقع ہوتی ہے،جس سے  نکاح  اسی وقت ٹوٹ جاتا ہے، پھر دوبارہ ساتھ رہنا شرعاً جائز نہیں ہوتا، دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے تجدیدِ نکاح  کرنا ضروری ہوتا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں بیوی کے جواب کے بعد سائل کے الفاظ"میں نے تمہیں آزاد کیا "5سے 6مرتبہ کہنے کے باوجود ایک  طلاق بائن واقع ہوگئی ہے ،نکاح ختم ہوگیا ہے، اب رجوع جائز نہیں، اور دونوں اگردوبارہ ساتھ رہنے پر رضامند ہوں تو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر اور نئے ایجاب وقبول کے ساتھ تجدید نکاح کرنا جائز ہوگا، تجدید نکاح کے بعد آئندہ کے لیے سائل کو دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌قوله ‌فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت۔"

(کتاب النکاح ،باب الصریح الطلاق ،252/3،ط،دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد۔"

(کتاب الطلاق ،فصل فی حکم الطلاق البائن،187/3،ط،دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قال لامرأته: أنت علي حرام)ونحو ذلك...ويفتى بأنه طلاق بائن (وإن لم ينوه) لغلبة العرف(

 (قوله: لغلبة العرف) إشارة إلى ما في البحر، حيث قال: فإن قلت إذا وقع الطلاق بلا نية ينبغي أن يكون كالصريح فيكون الواقع به رجعيا قلت: المتعارف به إيقاع البائن، كذا في البزازية اهـ أقول: وفي هذا الجواب نظر فإنه يقتضي أنه لو لم يتعارف به إيقاع البائن يقع الرجعي كما في زماننا، فإن المتعارف الآن استعمال الحرام في الطلاق، ولا يميزون بين الرجعي والبائن فضلا عن أن يكون عرفهم فيه البائن، وعلى هذا فالتعليل بغلبة العرف لوقوع الطلاق به بلا نية، وأما كونه بائنا فلأنه مقتضى لفظ الحرام لأن الرجعي لا يحرم الزوجة ما دامت في العدة وإنما يصح وصفها بالحرام بالبائن، وهذا حاصل ما بسطناه في الكنايات فافهم."

(کتاب الطلاق ،مطلب فی قولہ انت علی حرام،433/3،ط،دار الفکر) 

 

احسن الفتاوی میں ہے:

"(3) میں نے آزاد کردیا

تیسرا جملہ صریح بائن ہے ،لہذا اس سے طلاق کی نیت نہ ہو توصرف  تیسرے  جملہ سے ایک طلاق بائن ہوگی."

 ( كتاب الطلاق،  5/202،ط:سعيد)

 فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508101382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں