بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

نوکری حاصل کرنے کے لیے رشوت دینا


سوال

کراچی میں ایک کمپنی  میں ملازمت (سلائی کا کام) کرنے کے لیے گیا ہوں اور اس کمپنی کے  مینیجر نے اپنے ٹھیکیداروں /انچارجوں کی تنخواہ مقرر کی ہوئی ہے  اور کام کا الگ سے پرسنٹیج بھی دے رہا ہے، ہم مشینیں مانگتے ہیں تو ٹھیکہ دار ہم سے پندرہ (15) دن کے اعتبار سے 5 ہزار روپے مانگتے ہیں (رشوت کے طور پر) اگر ہم دینے سے انکار کریں  تو ہمیں نہ مشینیں دیتے ہیں کام کرنے  کے لیے اور نہ سلائی کا کام دیتا ہے۔ یعنی کہ سلائی کا کام اور مشین اس شخص کو ملتی ہیں جو ٹھیکہ دار کو پیسے بطور رشوت دیتا ہے۔ اگر پیسے نہ دیں تو وہ کام نہیں دیتا ہے نہ ہی مشین ہم کمپنی میں موجود اربابِ اختیار یا زمہ داروں تک شکایت نہیں پہنچا سکتے، تو کیا اس صورت میں ہمارے لیے مجبوراً ٹھیکیداروں کو رشوت / پیسے دینا جائز ہوگا ؟

جواب

 رشوت لینے اور دینے والے پر حضور اکرم ﷺ نے لعنت  فرمائی ہے، چناں چہ رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں، اس لیے حتی الامکان رشوت دینے سے بھی بچنا  واجب ہے، البتہ اگر کوئی  جائز  حق ثابت ہونےکے باوجود صرف رشوت نہ دینے کی وجہ سے  حاصل نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں حق دار  شخص کو چاہیے کہ اولاً وہ اپنی پوری کوشش کرے کہ رشوت دیے  بغیر بااثر لوگوں کے تعلق اور واسطے سے اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش کرے اگر پھر بھی حاصل نہ ہو سکے تو پھرمجبوراً رشوت دینے والاشخص گناہ گار نہیں ہو گا،البتہ رشوت لینے والے شخص کے حق میں رشوت کی رقم ناجائز ہی رہے گی ، اور سخت گناہ گار ہو گا۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ کمپنی کے ذمہ داروں کے علم میں لا کراس کام کو  بغیر رشوت کے حاصل کرنے کی کوشش کرے  ،اور جب تک کام نہ ہو  اس وقت تک صبر کرے اور صلاۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مسئلہ حل ہونے کی دعا مانگتا رہے، لیکن اگر پھر بھی کام حاصل نہ ہو سکے تو  سائل کو چاہیے کہ اس کام کو چھوڑ کر کہیں اور کام تلاش کرے ، اگر رشوت دے کر کام حاصل کر لیاتو رشوت  دینے کا عمل ناجائز ہو گا ، البتہ  اس ملازمت سے متعلقہ امور کی درست طریقہ پر انجام دہی پر تنخواہ حلال ہوگی۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"وعن عبد الله بن عمرو قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌الراشي ‌والمرتشي. رواه أبو داود وابن ماجه."

(‌‌كتاب الإمارة والقضاء ، ‌‌باب رزق الولاة وهداياهم ، ‌‌الفصل الثاني ، رقم الحديث ، 3753 ، ص :1108 ، ط : المكتب الاسلامي بيروت)

مشکاۃ کی شرح مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما : بالواو (قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌الراشي ‌والمرتشي) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهى الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلما فلا بأس به."

(كتاب الإمارة والقضاء ، ‌‌باب رزق الولاة وهداياهم ، ‌‌الفصل الثاني ، رقم الحديث ، 3753 ، ج : 7 ، ص : 295 ، ط : دار الكتب العلمية)

مشکاۃ کی شرح طیبی میں ہے :

"الحديث السادس عن عبد الله: قوله: (‌الراشي ‌والمرتشي) (فا): الرشوة الوصلة إلي الحاجة بالمصانعة۔۔۔وإنما تلحقهما العقوبة إذا استويا في القصد والإرادة فرشا المعطي لينال به باطلا ويتوصل به إلي الظلم. فأما إذا أعطى ليتوصل به إلي حق أو ليدفع عن نفسه مضرة فإنه غير داخل في هذا الوعيد."

(ج : 8 ، ص : 2606 ، ط : مكتبه نزار مصطفيى الباز)

فتح الباری میں ہے :

"وقد ثبت حديث عبد الله بن عمرو في لعن ‌الراشي ‌والمرتشي أخرجه الترمذي وصححه وفي رواية والرائش والراشي ثم قال الذي يهدي لا يخلو أن يقصد ود المهدى إليه أو عونه أو ماله فأفضلها الأول والثالث جائز لأنه يتوقع بذلك الزيادة على وجه جميل وقد تستحب إن كان محتاجا والمهدي لا يتكلف وإلا فيكره وقد تكون سببا للمودة وعكسها وأما الثاني فإن كان لمعصية فلا يحل وهو الرشوة وإن كان لطاعة فيستحب وإن كان لجائز فجائز لكن إن لم يكن المهدى له حاكما والإعانة لدفع مظلمة أو إيصال حق فهو جائز ولكن يستحب له ترك الأخذ."

‌‌(قوله باب من لم يقبل الهدية لعلة، ج :5 ، ص :221 ، ط : المكتبة السلفية)

أحكام القرآن للجصاص میں ہے :

"ووجه آخر من الرشوة، وهو الذي يرشو السلطان لدفع ظلمه عنه، فهذه الرشوة محرمة على آخذها غير محظورة على معطيها. وروي عن جابر بن زيد والشعبي قالا: "لا بأس بأن يصانع الرجل عن نفسه وماله إذا خاف الظلم" وعن عطاء وإبراهيم مثله. وروى هشام عن الحسن قال: "لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي" قال الحسن: "ليحق باطلا أو يبطل حقا، فأما أن تدفع عن مالك فلا بأس". وقال يونس عن الحسن: "لا بأس أن يعطي الرجل من ماله ما يصون به عرضه."

(‌‌ سورة المائده ، باب الرشوة ،آيت 44 ، ط : دار إحياء التراث العربي)

المعتصر من المختصر من مشكل الآثار میں ہے :

"ثوبان قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي والرائش وروى عنه والرائش الذي يمشي بينهما أخذ ذلك الريش التي تتخذ للسهام التي لا تقوم إلا بها وذلك في الحكم يبينه حديث أم سلمة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن الراشي والمرتشي في الحكم ولا يدخل في ذلك من رشى ليصل إلى حقه الممنوع عنه وأما المرتشي منه ليوصله إلى حقه داخل في اللعن ومما يدل عليه ما روى عن جابر بن زيد ما وجدنا في أيام ابن زياد وفي أيام زياد شيئا هو أنفع من الرشا أي أنهم كانوا يفعلون ذلك استدفاعا للشر عنهم."

(‌‌كتاب الأقضية ، ‌‌في الرشوة ، ج :2 ، ص : 6 ، ط : عالم الكتب - بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(قوله إذا خاف على دينه) عبارة المجتبى لمن يخاف، وفيه أيضا دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه وماله ولاستخراج ‌حق ‌له ‌ليس ‌برشوة يعني في حق الدافع."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة ، يكره إعطاء سائل المسجد إلا إذا لم يتخط رقاب الناس ، ج :6 ، ص :423/24 ، ط : سعيد كراچي)

وفيهاايضاّ :

"وفي الفتح: ‌ثم ‌الرشوة ‌أربعة ‌أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي۔۔۔وفي الأقضية قسم الهدية وجعل هذا من أقسامها فقال: حلال من الجانبين كالإهداء للتودد وحرام منهما كالإهداء ليعينه على الظلم وحرام على الآخذ فقط، وهو أن يهدى ليكف عنه الظلم."

(‌‌كتاب القضاء ، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية ، ج :5 ،ص :362)

تکملہ حاشیہ  ابن عابدين میں ہے :

"وقوله عليه الصلاة والسلام لعن الله الراشي والمرتشي والمراد به إذا كان هو الظالم فيدفعها لبعض الظلمة يستعين بها على الظلم.وأما ‌لدفع ‌الضرر ‌عن ‌نفسه فلا شبهة فيها،حتى روي عن أبي يوسف أنه أجاز ذلك للوصي من مال اليتيم لدفع الضرر عن اليتيم الخ."

(‌‌كتاب الصلح ، ج : 8 ، ص :222 ، سعيد كراچي)

الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے :

"ويحرم طلب الرشوة، وبذلها، وقبولها، كما يحرم عمل الوسيط بين الراشي والمرتشي غير أنه يجوز للإنسان عند الجمهور أن يدفع ‌رشوة للحصول على حق، أو لدفع ظلم أو ضرر، ويكون الإثم على المرتشي دون الراشي."

(‌‌أحكام الرشوة ، ج :22 ، ص : 222 ، ط :وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:۔علیم الدین نے بہت رشوت دے کر سرکاری ملازمت حاصل کی،اب اس ملازمت سے جو روپیہ کمایا ہے وہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب:۔اگر ملازمت کا  کام جائز ہے تو اس ملازمت  کی آمدنی،تنخواہ بھی جائز ہے،ابتداءً اگر ملازمت حاصل کرنے کے لیے رشوت دی تو اس کی وجہ سے اس ملازمت کی آمدنی جو کہ درحقیقت خدمت ومحنت  کا معاوضہ ہے،ناجائز نہیں،رشوت کا گناہ اس آمدنی تک نہیں پہنچا۔فقط واللہ اعلم"

(باب الرشوۃ ج:24،ص:226،ط:جامعہ فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں