بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اپنے چلتے کاروبار میں انویسٹر کی رقم شامل کرنا


سوال

 میری  موبائل کی دکان ہے، مجھے میرے ایک جاننے والے نے پانچ لاکھ روپے دئیے کہ اپنے کاروبار میں انویسٹ کردیں  اور ماہانہ مجھے  نفع دیں تو میں سوچ رہا ہوں کہ اس کو  اپنے نفع میں سے  ماہانہ 3 فیصد دے دوں، تو کیا میرے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  کسی شخص سے رقم لے کر اپنے کاروبار میں لگاکر اس کو نفع دینا  جائز ہونے کے لیےکچھ شرعی اصول وضوابط ہیں، جن  کی رعایت کرنا  ضروری ہے، اگر   ان اصولوں کی رعایت نہ رکھی تو معاملہ فاسد ہوجاتا ہے اور نفع کا لین دین ناجائز  اور حرام ہوجاتا ہے،  اس کے لیے پہلے یہ تعین بھی ضروری ہے کہ معاملہ ”شرکت “ (دونوں کے پیسے شامل ہوں)  کا ہوگا یا "مضاربت“ (ایک کی رقم اور دوسرے کی محنت) کا ہوگا، پھر ان میں سے ہر ایک کی اپنی مستقل شرائط ہیں۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں کسی سے رقم لے کر   اپنے   کاروبار کے مجموعی حساب کتاب کئے   اور شرعی شرکت کی شرائط کی رعایت رکھے  بغیر، اس رقم کو     اپنے چلتے کاروبار  میں شامل کرکے  اس کو ہر مہینہ اپنے منافع میں سے تین فیصد دے دینا شرعا  جائز  نہیں ہے، اگر اس  کے ساتھ شرکت ہی  کا معاملہ کرنا ہے تو معاملہ کے جائز ہونے کے لیے  درج ذیل شرائط کی رعایت رکھنا ضروری ہوگا:

  1.  انویسٹر کو  کاروبار میں شریک کرتے وقت پہلے سے موجود کاروبار کے اثاثہ جات  کا مکمل حساب کیا جائے،  پھر نئے  آنے والے انویسٹر کو   اس کے سرمایہ کے حساب سے شریک کیا جائے، اگر کاروبار میں کچھ سامان بھی موجود ہو   تو اس میں سے کچھ سامان انویسٹر کو  اس کی کچھ رقم کے بدلے میں بیچ دیا جائے  اور اس کو قبضہ دے کر پھر دوبارہ ملالیا جائے؛ تاکہ ہر شریک کا نقد اور سامان دونوں میں حصہ ہوجائے۔
  2.  نفع اصل سرمایہ  کے فیصد کے اعتبار سے طے نہ کیا جائے،    بلکہ حاصل ہونے والے نفع کے فیصد کے اعتبار سے مقرر کیا جائے۔
  3.  کسی ایک فریق کے لیے مخصوص اورمتعین رقم کی شرط نہ لگائی    جائے۔
  4.  نقصان کی صورت میں   ہر  شریک   پر  اس کے سرمایہ  کے تناسب سے نقصان کی ذمہ داری عائد ہوگی۔

نیزاس کے جواز  کی  ایک  صورت یہ  بھی ہوسکتی ہے کہ انویسٹر سے رقم ”مضاربت“  کے طور پر لی جائے، اور اس کی رقم سے کوئی مخصوص پراڈکٹ   خریدی جائے اور ان پراڈکٹ کا حساب الگ رکھا جائے،اور  نفع کی فیصد باہم طے کرلی جائے ، اس کے بعد  جو نفع حاصل ہو  اس کو باہم طے شدہ نفع کے تناسب سے تقسیم کردیا جائے، اور نقصان کی صورت میں  نقصان پہلے نفع سے پورا کیا جائے گا، اس کے بعد  انویسٹر کے  اصل سرمایہ   کا نقصان شمار ہوگا، بشرط یہ کہ سائل (ورکنگ پارٹنر)   سے کوئی تعدّی، غفلت اور کوتاہی نہ ہو۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"منها: (شرائط جواز الشركة) أن يكون الربح معلوم القدر ... وأن يكون جزءً شائعًا في الجملة لا معينًا ... أما الشركة بالأموال فلها شروط، منها أن يكون رأس المال من الأثمان المطلقة ... وهي الدراهم والدنانير عنانًا كانت الشركة أو مفاوضة ... ولو كان من أحدهما دراهم ومن الآخر عروض فالحيلة في جوازه أن يبيع كل واحد منها نصف ماله بنصف دراهم صاحبه ويتقابضا ويخلطا جميعًا حتى تصير الدراهم بينهما والعروض بينهما ثم يعقدان عليهما عقد الشركة فيجوز".

(كتاب الشركة، 6/59، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رءوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضيعته عليه...وإن قل رأس مال أحدهما وكثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط، والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما، كذا في السراج الوهاج."

( كتاب الشركة،الباب الثالث في شركة العنان،الفصل الثاني في شرط الربح والوضيعة وهلاك المال، 2/ 320، ط:رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين".

( كتاب المضاربة، 5 / 656، ط: سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144510102152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں