ایک بھائی اپنی بہن کو اپنی اولاد دے سکتا ہے جب کہ بہن کی اولاد نہ ہو؟ یا پھر اگر ان کے بچے ہو جائیں تو واپس لے سکتا ہے؟ اور بچے کے ورثہ (جائیداد)کے کیا حکم ہے؟
بھائی کا اپنی اولاد اپنی بیوی کی رضامندی سے اپنی بہن کو پرورش کے لیے دینا جائز ہے، خواہ بہن کی اولاد ہو یا نہ ہو، اور بہن کی اولاد ہونے کے بعد واپس لینا بھی جائز ہے، لیکن اس بچہ کے تمام کاغذات میں اس بچہ کو حقیقی والدین کی طرف منسوب کر کے لکھنا اور حقیقی والدین کی نسبت سے پکارنا ضروری ہوگا، حقیقی والدین جب بھی چاہیں اپنی اولاد واپس لے سکتے ہیں، گود دیے ہوئے بچے کی میراث کا تعلق صرف حقیقی والدین سے ہی ہوتا ہے، یعنی وہ صرف اپنے حقیقی والدین کا ہی وارث بنے گے اور اس کی میراث میں سے صرف حقیقی والدین کو ہی حصہ ملے گا، منہ بولے والدین سے بطور والدین اس کا وراثت کے اعتبار سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
جب رسولﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا ”متبنیٰ“ (منہ بولا بیٹا) بنایا اور لوگ ان کو ”زید بن محمد“ پکارنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:
{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا } [الأحزاب: 4، 5]
ترجمہ: اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ (از بیان القرآن)
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے والد کی طرف منسوب کرکے ”زید بن حارثہ“ کے نام سے پکارنے لگے، لہذا اس سے معلوم ہوا کہ کسی بچے کو گود لینے سے وہ حقیقی بیٹایا بیٹی نہیں بنتے، نہ ہی ان پر حقیقی بچوں والے احکامات جاری ہوتے ہیں، البتہ اگر کوئی کسی بچے کو لے کر اس غرض سے اپنے پاس رکھے کہ میں اس کی تربیت وپروش کروں گا، اور اسے بیٹے کی طرح رکھوں گا، اوراس کے اخراجات ومصارف اٹھاؤں گا، اور اس کے حقیقی والد سے اس کی نسبت منقطع نہ کرے تو یہ جائز ہے۔
الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:
"أَسْبَابُ الإِْرْثِ: ١٤ - السَّبَبُ لُغَةً مَا يُتَوَصَّل بِهِ إِلَى غَيْرِهِ. وَاصْطِلاَحًا: مَا يَلْزَمُ مِنْ وُجُودِهِ الْوُجُودُ وَمِنْ عَدَمِهِ الْعَدَمُ لِذَاتِهِ. أَسْبَابُ الإِْرْثِ أَرْبَعَةٌ، ثَلاَثَةٌ مُتَّفَقٌ عَلَيْهَا بَيْنَ الأَْئِمَّةِ الأَْرْبَعَةِ، وَالرَّابِعُ مُخْتَلَفٌ فِيهِ. فَالثَّلاَثَةُ الْمُتَّفَقُ عَلَيْهَا: النِّكَاحُ، وَالْوَلاَءُ، وَالْقَرَابَةُ، وَيُعَبِّرُ عَنْهَا الْحَنَفِيَّةُ بِالرَّحِمِ". ( ٣/ ٢٢)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144209200101
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن