بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 شعبان 1446ھ 05 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

اپنی ذات سے مقصد کو پالینے کی امید ہو لیکن والدین نہ مانیں تو کیا کیا جائے؟


سوال

میں میڈیکل کی طالبہ ہوں، اور اس سال میرا ایم بی بی ایس میں داخلہ نہیں ہو سکا، اور مجھے بننا ان شاء اللہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے، میرے والدین مجھے دوبارہ امتحان دینے کی اجازت نہیں دے رہے، وہ کہہ رہے ہیں کہ ایم بی بی ایس میں داخلہ نہیں ہوا تو نہیں ہوا،   کسی اور فیلڈ میں داخلہ لے لو،  لیکن  میرا کسی اور جگہ داخلہ لینے کا ذرا سا بھی دل نہیں ہے، میں نے استخارہ کیا تو اس کے بعد بھی میرا دل ایم بی بی ایس کی طرف ہی مائل ہے، لیکن  میرے والدین میری بات کو نہیں سمجھ رہے، اور مجھے پتا ہے میں ان کی بات مان کر کہیں اور داخلہ لے بھی لوں گی تو پڑھ نہیں پاؤں گی، اور مجھےاللہ کی ذات پرپورا یقین ہے  کہ میں دوبارہ ایم بی بی ایس کے لیے امتحان دوں گی تو میرا داخلہ  ہو جائے گا،  لیکن میں اپنے والدین کی ناراضگی بھی مول نہیں لینا چاہتی،  مجھے  سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا کروں، مجھے پتا ہے اگر میں نے کہیں اور داخلہ لیا تو صرف میرے والدین کا پیسہ ضائع ہو گا،کیا استخارہ کرنے کے بعد بھی مجھ پر والدین کی بات ماننا لازم ہے؟ یا میں ان کو کیسے مناؤں؟ میں اپنی تعلیم کا خرچ خود اٹھاؤں تو کیا تب بھی مجھ پر میرے والدین کی بات ماننا لازم ہے؟

نیز ایک طریقہ یہ ہے کہ میں یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینے کے ساتھ اپنے والدین کو بتائے بغیر امتحان دے دوں ،کیا ایسا کرنے پر مجھے گناہ ہو گا؟ کیوں کہ انہوں نے مجھے اجازت نہیں دی تو کیا میں ایسا کرنے سے گناہ گار ہوں گی؟ نیز میرے والد صاحب کہہ رہے ہیں کہ تم اللہ سے لڑ رہی ہو، جب اللہ نے یہاں داخلہ نہیں کرایا تو چھوڑ دو! لیکن میں نے استخارہ کیا ہے، اور میرا دل کہیں اور مائل نہیں ہو رہا، اور مجھے کچھ نہیں سمجھ آ رہا میں کیا کروں، مجھے ایک بار اور ٹرائی کرنا ہے، کیا دوبارہ ٹرائی کرنے کا مطلب اللہ سے لڑنا ہے؟ جب کہ میں نے اپنے ڈاکٹر بننے کے لیے اتنی دعائیں کی ہیں، مجھے یقین ہے اللہ تعالیٰ میری ان دعاؤں کو ضائع نہیں کرےگا،  اور میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر ضرور بنوں گی ان شاء اللہ! اب آپ بتائیں میں کیسے انہیں سمجھاؤں؟ یا کیا کروں؟

جواب

اگر آپ واقعی شرعی حدود میں رہ کر، پردہ کی مکمل پابندی کرکے ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں، تو اس صورت میں ایم بی بی ایس کی تعلیم کے حصول میں کوئی حرج نہیں ، لیکن اس  بات کا لحاظ ضروری ہے کہ اس تعلیم کی بناء پر والدین ناراض نہ ہوں، اگر والدین ناراض ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کی بھی ناراضگی ہوگی، اس لیے اگر والدین اس تعلیم سے منع کررہے ہیں تو ان کی بات مان لینی چاہیے ۔ 

البتہ ساتھ ساتھ آپ اپنے والدین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ اس تعلیم کے حصول اور دوبارہ داخلے کے لیے ٹیسٹ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرسکتی ہیں، شرعاً یہ کوشش ممنوع نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ سے سے دعا کرتی رہیں اور یہ اللہ سے لڑنا نہیں ہے، اور اپنے طور پر کوئی ایسا اقدام نہ کریں جس کی وجہ سے والدین ناراض ہوں یا ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے۔

سنن ترمذی میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "رضى الرب في رضى الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد."

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے، اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔

(أبواب البر والصلة عن رسول الله صلي الله عليه وسلم، باب الفضل في رضا الوالدين، ج:2، ص:454، ط:رحمانية)

فتاوی ٰ ہندیہ میں ہے:

"امرأة أصابتها قرحة في موضع لا يحل للرجل أن ينظر إليه لا يحل أن ينظر إليها لكن تعلم امرأة تداويها، فإن لم يجدوا امرأة تداويها، ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت وخيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنه يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، ولا فرق في هذا بين ذوات المحارم وغيرهن؛ لأن النظر إلى العورة لا يحل بسبب المحرمية، كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الکراھیة، ‌‌‌‌الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل له،ج:5 ، ص:407، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144604100680

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں