میں اپنی زندگی میں اپنے ورثاءکےدرمیان ترکہ تقسیم کرنا چاہتا ہوں تاکہ میرے مرنے کے بعد لڑائی جھگڑا نہ ہو ،میرے ورثا میں میری اہلیہ چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کتنا میں اپنی زندگی میں وصیت کر سکتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد اس ترتیب سے تقسیم کیا جائے ،نیزمذکورہ ورثاء میں شرعی اعتبار سے میرا ترکہ کس حساب سے تقسیم ہوگا؟
واضح رہے کہ کسی شخص کااپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا شرعاً ہبہ کہلاتا ہے نہ کہ میراث ،اور ہبہ میں شریعت مطہرہ نے والدین کو اپنی اولاد کے درمیان برابری کرنے کا حکم دیا ہے،یعنی جتنابیٹےکو دےاتنا ہی بیٹی کو دے،نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے،ورنہ گناہ گارہوگا اورایسی تقسیم شرعاً غیرمنصفانہ ہوگی۔نیزجب تک صاحب جائیداد زندہ ہووہ اپنی تمام جائیداد کا خود مالک ہوتا ہے اولاد وغیرہ کا اس میں کوئی حق و حصہ نہیں اور نہ ہی کسی کو مطالبہ کا حق حاصل ہے۔
صورت مسئولہ میں سائل اگر اپنی رضامندی اور خوشی سے اپنی بیوی اوراولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کرنا چاہے ،تو اس کا شرعی طریقہ ہےکہ سب سےپہلےاپنے لیے جتنا چاہےرکھ لے تاکہ بوقت ضرورت کام آسکے اور کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے ،پھراپنی بیوی کوجائیداد کا آٹھواں حصہ دے دے،اس کے بعد باقی بچ جانے والی جائیداداپنی موجودہ تمام اولاد، یعنی ایک بیٹا اور بیٹیوں کےدرمیان برابری کے ساتھ تقسیم کرے، یعنی اس کے پانچ حصے کر کے ایک ایک حصہ ہر ایک بیٹی اور بیٹے کو دے دے، بلا وجہ کمی بیشی نہ کرے، البتہ بیٹے یا کسی بیٹی کی کثرت دین داری یا زیادہ خدمت گزاری یا ضرورت مندی کی وجہ سے دیگر اولاد سے زیادہ دینا چاہے تو شرعاً اس کی گنجائش ہے ،نیز جس سے جو حصہ دے وہ اس کے حوالے بھی کر دے،محض نام کرنے یا وصیت کرنے سے ملکیت ثابت نہیں ہوگی۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية."
(كتاب الهبة،الباب السادس في الهبة للصغير،ج4،ص391 ،ط: رشیدیہ)
مجمع الانہر میں ہے:
"وفي السراجية وينبغي أن يعدل بين أولاده في العطايا، والعدل عند أبي يوسف أن يعطيهم على السواء هو المختار كما في الخلاصة. وعند محمد يعطيهم على سبيل المواريث، وإن كان بعض أولاده مشتغلا بالعلم دون الكسب لا بأس بأن يفضله على غيره، وعلى جواب المتأخرين لا بأس بأن يعطي من أولاده من كان عالما متأدبا ولا يعطي منهم من كان فاسقا فاجرا."
(كتاب الهبة،اركان الهبة ،ج : 2،ص: 358، ط : دارإحياء التراث العربي،بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100532
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن