میں نے کچھ رقم ایک سرکاری ملازم کے ساتھ پلاٹوں کی خرید و فروخت کرنے کے لیے پارٹنر شپ کے طور پر دی ہے کہ اپنے محکمہ کے تحت چلنے والی ہاؤسنگ سوسائٹی میں جہاں صرف اس محکمہ کے لوگ خریداری کر سکتےہیں، میرا دوست اپنے نام سے خریداری کرتا اور بیچتا ہے اور مجھے منافع دیتا ہے، کیا یہ منافع لینا جائز ہے؟ راہ نمائی فرمائیں جب کہ میں اس محکمہ کا ملازم نہیں ہوں؟
سوال میں مذکور طریقے کے مطابق پلاٹوں کی خرید و فروخت کرنا اور اس کا نفع لینا جائز ہے، بشرط یہ کہ معاملہ میں کوئی شرطِ فاسد نہ ہو، اور نفع کی تقسیم حاصل ہونے والے منافع کی فیصد کے حساب سے طے شدہ ہو۔ کسی ایک فریق کے لیے متعین رقم کی شرط نہ ہو۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 648):
"(وَكَوْنُ الرِّبْحِ بَيْنَهُمَا شَائِعًا) فَلَوْ عَيَّنَ قَدْرًا فَسَدَتْ (وَكَوْنُ نَصِيبِ كُلٍّ مِنْهُمَا مَعْلُومًا) عِنْدَ الْعَقْدِ.
وَمِنْ شُرُوطِهَا: كَوْنُ نَصِيبِ الْمُضَارِبِ مِنْ الرِّبْحِ حَتَّى لَوْ شَرَطَ لَهُ مِنْ رَأْسِ الْمَالِ أَوْ مِنْهُ وَمِنْ الرِّبْحِ فَسَدَتْ، وَفِي الْجَلَّالِيَّةِ كُلُّ شَرْطٍ يُوجِبُ جَهَالَةً فِي الرِّبْحِ أَوْ يَقْطَعُ الشَّرِكَةَ فِيهِ يُفْسِدُهَا، وَإِلَّا بَطَلَ الشَّرْطُ وَصَحَّ الْعَقْدُ اعْتِبَارًا بِالْوَكَالَة."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205200628
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن