1۔اگرمضاربت میں رب المال کے عمل کی شرط نہ لگائی گئی ہو، لیکن رب المال بھی عمل کرنا چاہے تو کیا وہ عمل کر سکتا ہے؟ اس کے اختیاری طور پر عمل کرنےسے عقد پر کوئی فرق تو نہیں پڑے گا؟
2۔اگر مضارب کا انتقال ہو جائے تو کاروبار رب المال کا ہو جائے گا یا مضارب کے ورثاء کا ہوگا اور رب المال کو اس کی انویسٹمنٹ بمع منافع واپس کی جائے گی؟اور اگر رب المال کا انتقال ہوجائے تو اس صورت میں کیا اُس کے ورثاء کو اس کا حصہ واپس کر دیا جائے گا؟
1۔ بصورتِ مسئولہ مضاربت کے معاملے میں اگر واقعتا ً رب المال پر بوقتِ معاہدہ عمل کی شرط نہ لگائی گئی ہو، اور وہ مضارب کی اجازت و رضامندی سے اُس کے ساتھ بطورِ معاون کاروباری سرگرمیوں میں عملاً شریک ہوجائے تو اِس کی گنجائش ہے،اِس سے عقدمضاربت پر کوئی اثر واقع نہ ہوگا۔ لیکن رب المال کے عمل کی حیثیت محض تبرع و احسان کی ہوگی،لہذا اُسے اپنے عمل کے بدلے کسی قسم کا معاوضہ نہیں ملے گا۔
بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:
"ولو سلم رأس المال إلى رب المال ولم يشترط عمله، ثم استعان به على العمل أو دفع إليه المال بضاعة جاز؛ لأن الاستعانة لا توجب خروج المال عن يده، وسواء كان المالك عاقدا أو غير عاقد لا بد من زوال يد رب المال عن ماله؛ لتصح المضاربة."
(كتاب المضاربة،فصل في شرائط ركن المضاربة، ج:6، ص:85، ط: دارالكتب العلمية)
تجارت کے مسائل کے انسائیکلوپیڈیا میں ہے:
"اگر عقدِ مضاربت میں مالک پر کام کرنے کی شرط نہیں تھی، اور مالک نے مضاربت کی رقم مضارب کو حوالہ کردی اور اجنبی کی طرح ہوگیا، پھر اس کے بعد مالک مضارب کی مددکرتا ہے، یا تبرع و احسان کے طور پر مضارب کے ساتھ کام بھی کرتا ہے تو یہ جائز و درست ہے اس کی وجہ سے عقد مضاربت فاسد نہیں ہوگا۔"
(مضاربت میں مالک بلاشرط عمل کرے، ج:6، ص:230، ط:بیت العمار)
2۔ مضارب یارب المال دونوں میں کسی ایک کا انتقال ہوجائے تو مضاربت کا معاملہ ازروئے شرع فوری طور پر ختم ہوجائے گا۔ باقی مضارب کا انتقال ہوجائے اورمضاربت کا سرمایہ سامان کی صورت میں موجود ہو تو مرحوم مضارب کا مقرر کردہ وصی ورنہ عدالت و قاضی کا مقرر کردہ وصی اُس تمام سامان کو فروخت کرے گا اور پھر جتنی مدت مضاربت کا معاملہ رہا ہو اُس مجموعی مدت کے اعتبار سے نفع نقصان کا حساب کتاب کرے گا، اور مرحوم مُضارب کا جتنا حصہ بنے وہ اُس کے ورثاء کو دیا جائے گا،اور اگر مرحوم مُضارب اپنی زندگی میں بھی ماہانہ یا سالانہ بنیاد پر نفع لیتا رہا ہو اور اب انتقال کے بعد مجموعی نفع کے اعتبار سے وہ زیادہ رقم وصول کرچکا ہوتو وہ زائد رقم مرحوم مضارب کے ذمہ دین کہلائے گی، جس کا رب المال مرحوم مضارب کے ورثاء سے مطالبہ کرسکتا ہے،باقی کاروباری سرمایہ اور بقیہ نفع کا رب المال حق دار ہوگا۔اور اگررب المال کا انتقال ہوجائے تو جو کاروباری سرمایہ پیسوں نقدی کی صورت میں موجود ہو اُس کے ذریعہ مزید سامان وغیرہ نہیں خریدا جائے گا، اور جو سرمایہ سامان کی صورت میں موجود ہو تو مضارب اُس سامان کو جلد از جلد فروخت کر ے گا، بعدازاں عقدِ مضاربت کی مجموعی مُدت کے اعتبار سے نفع نقصان کا حساب کتاب کرکے اپنے حصے کا منافع رکھ کر باقی مرحوم رب المال کا کاروباری سرمایہ اور منافع اُس کے ورثاء کو دے گا۔
مضاربت کے حوالہ سے مزید تفصیل کے لیے منسلکہ فتویٰ ملاحظہ ہو:
مضاربت کے حوالہ سے شرعی شرائط و احکام
بدائع الصنائع میں ہے:
"وتبطل بموت أحدهما؛ لأن المضاربة تشتمل على الوكالة، والوكالة تبطل بموت الموكل والوكيل وسواء علم المضارب بموت رب المال أو لم يعلم لأنه عزل حكمي فلا يقف على العلم كما في الوكالة، إلا أن رأس المال إذا صار متاعا، فللوكيل أن يبيع حتى يصير ناضا لما بينا."
(كتاب المضاربة، فصل في بيان ما يبطل به عقد المضاربة، ج:6، ص:112، ط:دارالكتب العلمية)
فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:
"قال (وإذا مات رب المال أو المضارب بطلت المضاربة) لأنه توكيل على ما تقدم، وموت الموكل يبطل الوكالة، وكذا موت الوكيل ولا تورث الوكالة وقد مر من قبل".
(کتاب المضاربة، فصل في العزل والقسمة، ج:8، ص:466، ط: دارالفکر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وإن قسم الربح وبقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادا الربح ليأخذ المالك رأس المال وما فضل بينهما، وإن نقص لم يضمن) لما مر."
(كتاب المضاربة، ج:5، ص:656،ط:سعيد)
دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"إذا توفي المضارب وكان موجودا في مال المضاربة عروض فيبيع وصي المضارب تلك العروض وإذا لم يكن له وصي فينصب القاضي وصيا له ويبيعها ذلك الوصي ويؤدي لرب المال رأس المال مع حصته كما أنه تؤدى حصة المضارب من الربح لورثته أو إلى غرمائه، وإذا توفي رب المال وكان مال المضاربة الموجود من جنس رأس المال فتبطل المضاربة في حق التصرف وليس للمضارب التصرف بعد ذلك فيها. أما إذا كان المال الموجود عروضا فتبطل المضاربة في حق المسافر ولا تبطل في حق التصرف، وللمضارب أن يبيع العروض المذكورة في بلدة رب المال مقابل عروض أو نقد أي له بيع مال المضاربة بعرض ونقد ثم يكون العرض الثاني كالأول فله بيعه بعرض أيضا إلى أن يصير مال المضاربة مثل رأس المال ولكن ليس له نقل تلك العروض إلى غير بلدة رب المال."
(كتاب المضاربة، الباب السابع، الفصل الثالث، ج:3، ص:460، ط:دارالجيل)
فقط والله تعالى اعلم
فتوی نمبر : 144605101769
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن