بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

عقدِ بیع مکمل ہوجانے کے بعد، اس عقد کو ختم کرنے کے لیے متعاقدین کی رضامندی ضروری ہے


سوال

میں نےآج سےچھ سال پہلےاپنی ساس سےبنگال میں ایک زمین خریدی تھی،دولاکھ کےعوض ،دراصل یہ زمین میرےسسرکی تھی،انہوں نےمرض الوفات میں اپنےبھائی کو اس کےخریدنےکی پیش کش کی ، لیکن وہ تیارنہ ہوئے،سسر کےانتقال کےبعدبھی میری ساس نےان کوکہا،پھربھی وہ انہوں نےنہیں خریدی،پھرسسرکےانتقال کےبعدمیری ساس  نےمیری بیوی کےذریعہ مجھےدولاکھ میں پیش کش کی،تومیں نےکہا،ٹھیک ہے،میں نےایک لاکھ روپےاسی وقت ان کو دیئے، پھرکچھ عرصہ میں پچاس ہزارمزیددیئے، میری ساس نےکہاباقی پیسےجب دیناچاہوتو دےدینا،اس دوران کئی مہینوں تک اس زمین کے بارےمیں گفت وشنیدہوتی رہی،ان کےتمام گھروالےاس پرراضی تھے،کسی نےکبھی کوئی اعتراض نہیں کیا،پھر2018ءمیں مجھےبنگال جاناتھا،توان کےگھروالوں نےمجھےزمین کی تحقیقات کےلیے وہاں کےمقامی  حضرات کےنمبرات دیئے،تاکہ میں اطمینان سےجگہ لےسکوں،اس زمین کےبارےمیں مجھےمکمل معلومات پہلےسےحاصل تھیں۔

بہرحال خریداری کےہوجانےکو چارسال گزرگئے،پھرایک دن میری ساس میرےپاس آکرکہنےلگیں کہ اس زمین کاکچھ پتہ نہیں چلتا،کوئی بیچ کرآپ کونقصان نہ پہنچادے،آپ ایساکرو کہ میرےبیٹےکمال نےجوآپ کےپاس نوےہزارروپےرکھوائےتھےاورپچاس ہزارمیرےآپ کےپاس ہیں،اس کواپنےاس زمین کےپیسوں کےبدلےلےلو، باقی دس ہزارآپ کوچنددنوں میں حوالہ کردوں گی،میں حیران ہوگیا،کہ انہوں نے تووہ زمین مجھےبیچ دی تھی،میں نےاس کی بات پر نہ ہاں کہانہ ناکہا۔

اب آپ سےپوچھناہےکہ اس حوالےسےہماری شرعی رہ نمائی فرمائیں کہ ان کایہ کام کہ زمین بیچنےکےبعدجب اس کی قیمت بڑھ گئی توواپس کرلینا،کیاحکم رکھتاہے،آیاجائزہے؟یانہیں؟

جواب

واضح رہےکہ عقدِبیع (خریداری)مکمل ہوجانےکےبعدجانبین میں سے کوئی یک طرفہ اس معاملےکوختم نہیں کرسکتا،جب تک دونوں فریق راضی نہ ہوں،لہٰذاصورتِ مسئولہ میں جب سائل نے سسرکی متروکہ زمین تمام ورثاکی رضامندی سے خریدکراس کی اکثر رقم اداکردی اورکچھ رقم  کی ادائیگی کوفریق ثانی(ساس) کی رضامندی  سےبعدمیں کرنے کاکہا،تویہ معاملہ مکمل ہوچکاہے، اس کےبعداگرسائل (خریدار)  اس معاملےکوختم کرنےپرراضی نہیں ہے تو سائل کی ساس یک طرفہ طورپراس عقدکوختم کرنےکااختیارنہیں رکھتیں،جب تک سائل (خریدار) راضی نہ ہو؛ لہذا ابھی  یہ زمین  شرعًا سائل  کی ہے۔

تفسیررازی میں ہے:

"واعلم أن كل عقد تقدم لأجل توثيق الأمر وتوكيده فهو عهد فقوله: وأوفوا بالعهد نظير لقوله تعالى:"‌يا ‌أيها ‌الذين ‌آمنوا ‌أوفوا ‌بالعقود" فدخل في قوله: ‌أوفوا ‌بالعقود كل عقد من العقود كعقد البيع والشركة، وعقد اليمين والنذر، وعقد الصلح، وعقد النكاح. وحاصل القول فيه: أن مقتضى هذه الآية أن كل عقد وعهد جرى بين إنسانين فإنه يجب عليهما الوفاء بمقتضى ذلك العقد والعهد، إلا إذا دل دليل منفصل على أنه لا يجب الوفاء به فمقتضاه الحكم بصحة كل بيع وقع التراضي به وبصحة كل شركة وقع التراضي بها، ويؤكد هذا النص بسائر الآيات الدالة على الوفاء بالعهود والعقود كقوله: والموفون بعهدهم إذا عاهدوا."

(سورة الإسراء  : آية 35، ج:20، 337، ط:إحياء التراث)

فتح القدیرمیں ہے:

"(قوله وإذا حصل الإيجاب والقبول لزم البيع ولا خيار لواحد منهما إلا من عيب أو عدم رؤية)."

(كتاب البيوع، ج:6، ص:257، ط:دار المعرفة)

بدائع ا لصنائع میں ہے:

"أن ركن ‌الإقالة هو الإيجاب والقبول كركن البيع ...وأما شرائط صحة الإقالة (فمنها) رضا المتقايلين أما على أصل أبي يوسف فظاهر؛ لأنه بيع مطلق، والرضا شرط صحة البياعات.وأما على أصل أبي حنيفة ومحمد وزفر فلأنها فسخ العقد، والعقد لم ينعقد على الصحة إلا بتراضيهما أيضا."

(كتاب البيوع، فصل في بيان ما يرفع حكم البيع، ج:5، ص:306، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144511100920

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں