ہمیں کرایہ داری کےمعاملےسےمتعلق چندسوالات کےجوابات درکارہیں۔
1:ہمارےفلیٹ کےمالک جب حیات تھے،تمام کرایہ داروں کومیٹھےاورکھارے(بورنگ کے)پانی کی ترسیل باقاعدگی سےکی جاتی تھی،(واضح رہےکہ اس کی ہم سےکوئی فیس یاکرایہ کےرقم کےعلاوہ کوئی معاوضہ نہیں لیاجاتاتھا)،پھران کےانتقال کےبعدان کی خاتون خانہ نے میٹھےپانی کی ترسیل توبالکل بندکردی ہے،بلاکسی جوازکے،مالکن کی جانب سےاب (بورنگ کا)کھاراپانی فراہم کیاجاتاہےوہ کم بھی مقدارمیں ،کبھی مشین کی خرابی کابہانہ،کبھی پانی کم ہونےکابہانہ،کبھی بجلی یونٹس زیادہ ہونےکابہانہ کرکےپانی سپلائی نہیں کرتی،جب کہ مالکن نےکھارےپانی کےلیےدوٹینکیوں کاسسٹم کیاہواہے،ایک سسٹم سےان کاگھربھی منسلک ہے،اس میں زیادہ پانی چڑھاتی ہے،جس کی وجہ سے ایک حصہ کےکرایہ دارپانی سےمحروم رہتےہیں،چوں کہ مالکن اپنی مرضی ،منشا،ضرورت اوراوقات کےمطابق پانی چڑھاتی ہےجن کی بناپردیگرضروری امورخصوصانمازجمعہ میں تاخیروقضابھی ہوجاتی ہے،کیایہ عمل جائزہے؟
2:مالکن کےساتھ اس سارےمعاملات میں ان کی بہن شریک ہے،جواس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے،ان کایہ عمل جائزہے؟
3:مذکورہ بالاتمام معاملات کےپیشِ نظرمالکن کےحق میں ان کرایہ داروں کے کرایہ کی رقم حلال ہے؟
4:جب کبھی ان سےان معاملات کےبارےمیں بات ہوجاتی ہے،تووہ کہتی ہےنکل جاؤ،پھرمکان خالی کرانےکی غرض سےمہینہ کاکرایہ بھی نہیں لیتی ،تواس صورت میں اس کرایہ کو اسی فلیٹ میں مالکن کےمرحوم شوہرکےایک حقیقی بھانجےرہتےہیں،ان کودیاجاسکتاہے،تاکہ وہ اپنےپاس امانت رکھ لے،بعدمیں ان کواداکردے،ازروئےشرع کیا حکم ہے؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماکرعنداللہ ماجورہوں۔
1:فلیٹوں میں رہائش پذیرافرادکوپانی (چاہےبورنگ کاہویاحکومت کی طرف سےدی گئی لائن کاہو)کی فراہمی عرفاًفلیٹ انتظامیہ یامالک کی ذمہ داری ہوتی ہے،لہذافلیٹ کی مالکن کااپنےکرایہ داروں کوپانی فراہم کرنااس کی ذمہ داری ہے،پانی کاانتظام کرنےکی استطاعت کےباوجودپانی روکناجائزنہیں ہے،باقی موٹروغیرہ چلانےمیں جو اخراجات ہوتےہیں تواس سےبچنےکایہ حل نہیں ہےکہ کرایہ داروں کاپانی روک دیا جائے، بلکہ یہ اخراجات پانی لینےوالوں پرتقسیم کرکےان سےلیےجاسکتےہیں،جیساکہ عمومافلیٹوں میں مینٹی نینس کےنام پرماہانہ بنیادوں پر ہرکرایہ دارسے متعینہ رقم وصول کرنےکارواج ہوتاہے۔لیکن اگرپانی باوجودکوشش کےکم آتاہواورمالک مکان کی کوتاہی شامل نہ ہوتوپھرمکینوں کوتحمل سےکام لیناچاہیےیاپھرجہاں پانی کی مناسب سہولت ہووہاں رہائش اختیارکرلی جائے۔
2:مالکن سےاگرواقعی غلطی یازیادتی ہورہی ہوتواس کی بہن کااس عمل میں معاونت کرناجائزنہیں ہے،گناہ کےکام پرتعاون کرنابھی گناہ ہےاورپڑوسی کی ایذارسانی توبہت بڑاگناہ ہے۔
3: مالکن کےلیےمذکورہ جائیدادکےکرایہ کی رقم حلال ہے،باقی مالکن کوچاہیےکہ جب اسےکرایہ وقت پرمل رہاہےتواپنےکرایہ داروں کوتنگ نہ کرے،کم ازکم پڑوسی ہونےکالحاظ کرلے،پڑوسی کی ایذارسانی ناجائز ہے۔
4:اگرمالکن مکان خالی کرنےکاکہتی ہےاورمعاہدۂ کرایہ کی مدت پوری ہوچکی ہےیاکوئی مدت طےنہیں، بلکہ ماہانہ بنیادپرہےتوشرعًااسےاس کاحق ہےاوراگر اس کےساتھ مخصوص مدت کےلیےکرایہ داری کامعاہدہ ہواہواورمدت باقی ہوتومالکن کےلیےمعاہدہ کی خلاف ورزی کرکےکرایہ دارکونکالنادرست نہیں۔
فتح القدیر میں ہے:
"قال: ومن اشترى بيتا في دار أو منزلا أو مسكنا لم يكن له الطريق إلا أن يشتريه بكل حق هو له أو بمرافقه أو بكل قليل وكثير، (وكذا الشرب والمسيل) لأنه خارج الحدود إلا أنه من التوابع فيدخل بذكر التوابع، بخلاف الإجارة لأنها تعقد للانتفاع فلا يتحقق إلا به، إذ المستأجر لا يشتري الطريق عادة ولا يستأجره فيدخل تحصيلا للفائدة المطلوبة منه ... وقوله (بخلاف الإجارة) متصل بقوله لم يكن له الطريق: يعني في الإجارة يدخل الطريق والشرب والمسيل لأن المقصود منها الانتفاع ولا انتفاع بغير دخول هذه الأشياء."
(كتاب البيوع، باب الحقوق، ج:7، ص:42، ط:دار الفكر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وروي :الدال على الخير كفاعله والدال على الشر كفاعله."
(كتاب الحج، فصل بيان حكم ما يحرم على المحرم، ج:2، ص:204، ط:دارالكتب العلمية)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وأما شرائط الصحة فمنها رضا المتعاقدين."
(كتاب الإجارة، الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ج:4، ص:410، ط:دار الفكر)
وفيه ايضا:
"يصح العقد على مدة معلومة أي مدة كانت قصرت المدة كاليوم ونحوه أو طالت كالسنين، كذا في المضمرات. ويعتبر ابتداء المدة مما سمى، وإن لم يسم شيئا فهو من الوقت الذي استأجرها، كذا في الكافي ...و لو قال: آجرتك هذه الدار سنة كل شهر بدرهم جاز بالإجماع؛ لأن المدة معلومة والأجرة معلومة فتجوز فلا يملك أحدهما الفسخ قبل تمام السنة من غير عذر، كذا في البدائع."
(كتاب الإجارة، الباب الثالث الأوقات التي يقع عليها عقد الإجارة، ج:4، ص:416، ط:دار الفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144512100968
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن