زید گاۓ کا کاروبار کرتا ہے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں، عمر اس کو دس لاکھ دے رہا ہے، زید اس میں گاۓ خریدے گا اور ہر گاۓ پر ہزار روپیہ عمر کو دے گا، چاہے زید کاروبار میں نفع کرے یا نقصان ہر حال میں اس نے عمر کو فی گاۓ ہزار روپیہ دینا ہے، کیا اس طرح کا کاروبار جائز ہے کہ نہیں ؟
واضح رہے کہ عقدِ مضاربت میں منافع کی تقسیم حقیقی نفع کے تناسب سے طے کی جانی ضروری ہے، اگر کسی ایک کے لیے معین رقم یا سرمایہ کے تناسب سے پہلے سے نفع طے کرلیا (یعنی کل سرمایہ کا اتنا فیصد ملے گا) تو مضاربت جائز نہیں ہوگی۔لہذا صورتِ مسئولہ میں یہ طے کرنا کہ زید عمر کو ہر گائے پر ایک ہزار روپے دے گا یہ صورت جائز نہیں۔
الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:
"ولا تصح إلا أن يكون الربح بينهما مشاعا، فإن شرط لأحدهما دراهم مسماة فسدت، والربح لرب المال، وللمضارب أجر مثله، واشتراط الوضيعة على المضارب باطل."
(کتاب المضاربة، ج:3، ص:20، ط:دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501100919
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن