بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ کا حکم/ بالغ اولاد کا عقیقہ والد کے ذمہ نہیں ہے


سوال

اگر کسی شخص کا اپنا عقیقہ بھی نہ ہوا ہو اور اس کی اولاد کا بھی نہ ہوا ہو تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ عقیقہ نہ کرنے سے گناہ تو نہیں ہو گا؟  اولا دمیں 3 بیٹےاور 3 بیٹیاں،بیٹے بالغ ہیں اور خود کماتے ہیں ،جب  کہ بیٹیاں بھی بالغ ہیں، لیکن زیرِ کفالت ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ عقیقہ کرنا ایک مستحب عمل ہے،واجب اور فرض عمل نہیں ہےکہ جس کے چھوڑنے کی وجہ سے گناہ لاز م آئےاور اس کا اصلی وقت پیدائش سے ساتواں دن ہے(پیدائش کے دن سے ایک دن پیشتر)،لیکن آخری عمر تک بھی اس کی گنجائش ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں جس شخص نے اپنا عقیقہ نہیں کیا،اس کے لیے بہتر ہے کہ اپنا عقیقہ کرلے اور جو بالغ لڑکے كماتے ہیں ان کاعقیقہ والد کے ذمہ مستحب نہیں رہا،اسی طرح لڑکیوں کا عقیقہ  ان کی بلوغت کے بعد والد کے ذمہ نہیں رہا،البتہ اگر والد اپنی خوشی سے کرنا چاہے تو جب تک اولاد زندہ ہے کرسکتا ہے، ثواب ملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"يستحب لمن ولد له ولد ۔۔۔ ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة علي ما في جامع المحبوبي أو تطوعا علي ما في شرح الطحاوي."

(كتاب الأضحیة، ج: 6، ص: 336، ط: سعید)

العقود الدرية  میں ہے:

"ووقتها بعد تمام الولادة إلى البلوغ، فلا يجزئ قبلها، وذبحها في اليوم السابع يسن، والأولى فعلها صدر النهار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة ؛ للتبرك بالبكور ويسن أن يعق عن نفسه من بلغ ولم يعق عنه."

(كتاب الذبائح، العقيقة، ج: 2 ص: 213، ط: دار المعرفة)

فتح الباری میں ہے:

"والاختيار أن لا تؤخر عن البلوغ فإن أخرت عن البلوغ سقطت عمن كان يريد أن يعق عنه لكن إن أراد أن يعق عن نفسه فعل ونقل عن نص الشافعي في البويطي أنه لا يعق عن كبير وليس هذا نصا في منع أن يعق الشخص عن نفسه بل يحتمل أن يريد أن لا يعق عن غيره إذا كبر."

( باب إماطة الأذى عن الصبي، ج: 9، ص: 595، ط: دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144511102345

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں