بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ کے بالوں کا حکم


سوال

عقیقہ کے وقت مونڈے ہوئے بالوں کو سمندر برد کرنا ضروری ہے یا مٹی میں دبانا ؟

جواب

انسان کے جسم سے کاٹے گئے یا جدا ہونے والے بال، ناخن یا دیگر حصوں کے بارے میں حکم یہ ہے کہ انہیں دفن کیا جائے، لہٰذا نومولود کے بالوں کے بارے میں بھی مستحب یہ ہے کہ اس کے بالوں کو دفن کردیا جائے، بچے یا بڑے کے بال سمندر، دریا یا ندی میں ڈالنا سنت سے ثابت نہیں ہے۔

معجم كبير ميں ہے:

"عن عبد الجبار بن وائل، عن أبيه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كان يأمر بدفن الشعر، والأظفار." 

(باب الواو، ج:22، ص:33، ط:مکتبه ابن تیمیه قاہرہ)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن رجل من بني هاشم: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بدفن الشعر والظفر والدم."

(کتاب الادب، في ما يؤمر به الرجل إذا احتجم، أو أخذ من شعره، أو قلم أظفاره ، ج:5، ص: 241،ط، مكتبة الرشد  الرياض)

عمدة القاری میں ہے:

"النوع السادس: أن فيه أنه لا بأس باقتناء الشعر البائن من الحي وحفظه عنده، وأنه لايجب دفنه، كما قال بعضهم: إنه يجب دفن شعور بني آدم، أو يستحب، وذكر الرافعي في سنن الحلق، فقال: وإذا حلق فالمستحب أن يبدأ بالشق الأيمن ثم بالأيسر، وأن يكون مستقبل القبلة، وإنما يكبر بعد الفراغ، وأن يدفن شعره." 

(کتاب الحج، باب الحلق والتقصیر، ج:10، ص:63، ط:دار إحیاء التراث العربی بیروت)

حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"وفي الخانية: ينبغي أن يدفن قلامة ظفره ومحلوق شعره وإن رماه فلا بأس، وكره إلقاؤه في كنيف أو مغتسل؛ لأن ذلك يورث داءً."   

(کتاب الصلوۃ، باب الجمعة، ج:1، ص:257، ط:دار الکتب العلمیه بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100154

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں