بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

عقیقہ کا شرعی حکم


سوال

عقیقہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

بچے کی پیدائش کے ساتویں دن جو جانور ذبح کیا جاتا ہے، اسے عقیقہ کہتے ہیں، عقیقہ کرنا شرعاً مستحب ہے، اگر ساتویں دن نہ کیا جاسکے تو چودہویں دن ورنہ اکیسویں دن کرلیا جائے۔اگر اکیسویں روز بھی عقیقہ  نہ کر سکيں تو اس کے بعد عقیقہ کرنا مباح ہے، تاہم جب بھی عقیقہ کریں بہتر یہ ہے کہ پیدائش کے دن  کے حساب سے ساتویں دن کریں،  یعنی بچے کی پیدائش اگر ہفتہ کے دن  ہو تو ساتواں دن جمعہ بنتا ہے، لہذا بہتر یہ ہے کہ جب بھی عقیقہ کریں ساتویں دن   یعنی جمعے کی رعایت رکھیں،  الغرض جس دن بچہ پیدا ہوا ہے  اس سے ایک دن پہلے عقیقہ کرے، یعنی اگر جمعہ کو پیدا ہواتو  جمعرات کو عقیقہ کرے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

" يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه، ويحلق رأسه، ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقةً إباحةً على ما في الجامع المحبوبي أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية، تذبح للذكر والأنثى، سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها 
 مع كسر عظمها أو لا، واتخاذه دعوة أو لا، وبه قال مالك".

(رد المحتار على الدر المختار،‌‌كتاب الحظر والإباحة، 6/ 336ط:سعید)

اعلاء السنن میں ہے:

"أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع."

(كتاب الذبائح،  باب العقيقة، ج:17،ص:117، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة)

فيض الباری شرح صحيح البخاری  میں ہے :

"ثم إن الترمذي أجاز بها إلى يوم إحدى وعشرين. قلتُ: بل يجوز إلى أن يموت، لما رأيت في بعض الروايات أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلّم عقّ عن نفسه بنفسه." 

(كتاب العقيقة، باب العتيرة، ج:5، ص:648، ط:دار الكتب العلمية) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144511102512

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں