بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

عراف کے پاس جانے کا حکم


سوال

میں نے حساب کروایا تھا اپنےرشتے کے لیے، وہ کہہ رہے تھے کہ استخارہ ٹھیک آیا ہے، ستارہ بھی ملتا ہے لیکن آپ کے ستارے گردش میں ہیں۔ کسی نے رشتے کی بندش کروائی ہوئی ہے آپ پر۔ اس سلسلے پر میں کیا کروں؟

جواب

واضح رہے کہ کاہنوں کی بتائی ہوئی باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اور  کاہنوں (حساب کتاب کر کے مستقبل کا حال بتانے والا) کے پاس جانا اور ان سے اپنے مستقبل کا حال پوچھنا یہ سب ناجائز اور حرام ہے، اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: "جو شخص کسی کاہن کے پاس گیا اور اس سے (اپنے مستقبل کے بارے میں) پوچھا، تو 40 دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔"

جب انسان کو کوئی معاملہ درپیش ہو، تو ایسے مواقع کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو استخارہ کی تعلیم دی ہے، کہ ایسے موقع پر انسان استخارہ کرے اور اللہ سے مشورہ طلب کرے اور پھر جس طرف دل مائل ہو، اسے کر گزرے، ان شاء اللہ اسی میں خیر ہوگی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کو چاہیے کہ  اگر آپ کی نظر میں آپ کے لیے مناسب رشتہ ہو، تو اس سے متعلق استخارہ کر کے اور خاندان والوں کی مشاورت سے اس پر عمل کرلیا جائے  اور اچھے اور مناسب رشے کے لیے اس آیت کا ورد بھی جاری رکھیں: "رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ."

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن حفصة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌أتى ‌عرافا فسأله عن شيء لم تقبل صلاة أربعين ليلة» . رواه مسلم."

(كتاب الطب والرقى، باب الكهانة، ج:2، ص:1293، ط:المكتب الاسلامي)

سنن ترمذی میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن، يقول: " إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم، وأنت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري - أو قال: في عاجل أمري وآجله - فيسره لي، ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري - أو قال: في عاجل أمري وآجله - فاصرفه عني، واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان، ثم أرضني به، قال: ويسمي حاجته " وفي الباب عن عبد الله بن مسعود، وأبي أيوب: حديث جابر حديث حسن صحيح غريب لا نعرفه إلا من حديث عبد الرحمن بن أبي الموال وهو شيخ مديني ثقة، روى عنه سفيان حديثا، وقد روى عن عبد الرحمن غير واحد من الأئمة."

(أبواب الوتر، باب ما جاء في صلاة الاستخارة، ج:1، ص:490، ط:دار الغرب الاسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601101081

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں