لوگ سبزی منڈی سےقرض لیتے ہیں، وہ شرط لگاتا ہے کہ اپنا مال مجھے بیچنا،پھر وہ کمیشن عرفی لیتا ہے،تو کیااس طرح قرض لینا جائز ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر قرض دینے والا باقاعدہ یہ شرط لگاکر قرض دیتا ہو کہ بعد میں مقروض اسی کو اپنا مال فروخت کے لیے دے گا، تو یہ درست نہیں ہے،اس لیے کہ قرض دے کر اس پر کسی بھی قسم کا بالواسطہ یا بلا واسطہ نفع اٹھانا جائز نہیں ہے؛ لہذا اس صورت میں آڑھتی کسی زمین دار کو قرض دينے كے بعد اُسے اپنا مال اِسی آڑھتی کے ہاتھوں فروخت کروانے پر مجبور نہیں کرسکتا، اور نہ ہی اس شرط کے ساتھ قرض کالین دین درست ہے، البتہ اس صورت میں اگر قرض دینے کے لیے کمیشن پر مال دینے کی شرط نہ رکھی جائے، یعنی غیر مشروط طور پر قرض دے دیا جائے، پھر زمين دار اپنا مال اخلاقًا قرض دینے والے کو مارکیٹ ویلیو کے مطابق کمیشن پر فروخت کرنے کے لیے دے دے یعنی وہ آڑھتي اس کا مال بیچنے کا اتنا ہی کمیشن لے جتنا دوسرے ایجنٹ لیتے ہیں اور مال دینے یا نہ دینے سے قرض کی واپسی کی مدت کے گھٹنے اور بڑھنے کا بھی کوئی تعلق نہ ہو، تو یہ جائز ہے اور اس کی یہ آمدنی سودی نہیں ہے؛ لیکن اگر قرض کی وجہ سے قرض دینے والا مشروط طور پر زیادہ کمیشن لے یا مقروض کا مال سستا خرید لے تو یہ قرض پر نفع ہونے کی وجہ سے سود ہوگا، اسی طرح اگر مارکیٹ ویلیو کے مطابق ہی کمیشن پر کام کرے، لیکن قرض دینے سے پہلے ان دونوں کا آپس میں آڑھت کا معاملہ نہ ہو، صرف قرض کی وجہ سے اب مال دیا جا رہا ہو، تو اس مشروط معاملے سے بھی اجتناب کیا جائے۔
المبسوط للسرخسي میں ہے:
"وإذا اشترى بيعا على أن يقرضه فهذا فاسد لنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع وسلف ولنهيه صلى الله عليه وسلم عن بيع وشرط. والمراد شرط فيه منفعة لأحد المتعاقدين لا يقتضيه العقد وقد وجد ذلك."
(كتاب الصرف، باب القرض والصرف فيه، ج:14، ص: 40، ط:دار المعرفة - بيروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
''قال محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الصرف إن أبا حنيفة - رحمه الله تعالى - كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به وكذلك إذا أقرض رجلا دراهم أو دنانير ليشتري المستقرض من المقرض متاعا بثمن غال فهو مكروه، وإن لم يكن شراء المتاع مشروطا في القرض ولكن المستقرض اشترى من المقرض بعد القرض بثمن غال فعلى قول الكرخي لا بأس به وذكر الخصاف في كتابه وقال ما أحب له ذلك.
وذكر شمس الأئمة الحلواني أنه حرام وذكر محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الصرف أن السلف كانوا يكرهون ذلك إلا أن الخصاف لم يذكر الكراهة إنما قال لا أحب له ذلك فهو قريب من الكراهة لكنه دون الكراهة ومحمد - رحمه الله تعالى - لم ير بذلك بأسا فإنه قال في كتاب الصرف المستقرض إذا أهدى للمقرض شيئا لا بأس به من غير فصل فهذا دليل على أنه رفض قول السلف قال شيخ الإسلام خواهر زاده - رحمه الله تعالى - ما نقل عن السلف محمول على ما إذا كانت المنفعة وهي شراء المتاع بثمن غال مشروطة في الاستقراض وذلك مكروه بلا خلاف وما ذكر محمد - رحمه الله تعالى - محمول على إذا لم تكن المنفعة وهي الهدية مشروطة في القرض وذلك لا يكره بلا خلاف هذا إذا تقدم القرض على البيع.''
(الباب التاسع عشر في القرض والإستقراض والإستصناع، 3/ 203، ط: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق)
فتاوی شامی میں ہے:
"( كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه."
(کتاب البیوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج:5، ص:166،ط. سعيد،كراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102426
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن