بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

عصر اور مغرب کے درمیان سبق پڑھنے کا حکم


سوال

کیا عصر سے مغرب تک اسکول کا سبق پڑھنا چاہیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں نمازِ عصر کے بعد کوئی سبق پڑھنا یا کوئی بھی دماغی کام کرنا شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے، اور نہ اس وقت جسمانی ورزش یا کھیل کود لازم ہے، اس متعلق صحیح احادیثِ مبارکہ سے کوئی حکم ثابت نہیں ہے، البتہ بعض سلفِ صالحین نے طبی نقطہ نظر سے عصر کے بعد  مطالعہ وغیرہ کرنے سے منع کیا ہے، اس سے بینائی کم زور ہوتی ہے، امام شافعی اور امام احمد رحمہمااللہ کے بارے میں منقول ہے کہ یہ حضرات عصر کے بعد کتابیں پڑھنے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔

كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس میں ہے:

 "من أحب حبيبتيه - أو كريمتيه فلا يكتبن بعد العصر ...

قال وقد أوصى الإمام أحمد بعض أصحابه أن لا ينظر بعد العصر إلى كتاب - أخرجه الخطيب قال وهو من كلام الطب، كما قال الشافعي : الوراق إنما يأكل من دية عينيه . وفي معناه الخياط وأرباب الصنائع ".

(حرف المیم، ج:2، ص:222، ط:مکتبۃ القدسی)

موسوعة الفقه الإسلامي میں ہے:

"القاعدة التاسعة: الأصل في الأشياء الإباحة فكل ما خلق الله الأصل فيه الحل والإباحة ما لم يرد دليل يحرمه.

وكل ما صنع الإنسان من الآلات والأجهزة فالأصل فيه الحل والإباحة ما لم يرد فيه دليل يحرمه، فالأصل الإباحة في كل شيء، والتحريم مستثنى."

(القاعدة التاسعة، ج:2، ص:293، ط:بيت الافكار الدولية)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144408100005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں