میں پریگننٹ (حاملہ) ہوں، میرے پہلے سے سات بچے ہیں، اب یہ آٹھویں ڈیلیوری ہوگی، مجھے دو سال سے استمہ (سانس کی بندش) کی بیماری ہے، ایک بار اسپتال میں بھی ایڈمٹ ہوچکی ہوں، اب ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اِستمہ میں ڈیلیوری کے وقت پُش (PUSH) کرنا مشکل ہوتا ہے، ہاتھ پاؤں نیلے ہونے کا خطرہ ہے، کسی بھی وقت سانس رک سکتی ہے، کیا اس ڈیلیوری کے بعد میں نس بندی(یعنی بچہ بند کروانے) کا آپریشن کرواسکتی ہوں؟ آخری ڈیلیوری میں بھی مجھے کافی مشکل ہوئی تھی۔
نس بندی یعنی ایسا آپریشن جس سے ہمیشہ کے لیےتوالد و تناسل کی اہلیت ختم ہوجائے منشاء شریعت کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، لہٰذا حمل روکنے کے لیے نس بندی کروانا شرعاً جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس میں افزائشِ نسل کا انقطاع ہےاور اولاد کے سلسلے کو روکنے کے لئے کوئی بھی ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سےمستقل طور پر مرد یا عورت میں افزائش نسل کی صلاحیت ختم ہو جائے جائز نہیں ہے، البتہ اگر رحم کی نالی کو کلپ وغیرہ لگا کر عارضی طور پر بند کیا جائے، مستقل بند نہ کیا جائے اس طرح کہ بعد میں جب چاہیں اسے کھول سکیں، تو شدید مجبوری مثلاً عورت اتنی کم زور ہو کہ حمل اور ولادت کی صعوبتیں برداشت نہ کرسکتی ہو اور حمل کی صورت میں شدید کم زوری یا جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہو تو ایسی صورت میں درج ذیل شرائط کے ساتھ اس کی گنجائش ہوگی:
1. کوئی ماہر دین دار ڈاکٹر/ لیڈی ڈاکٹر کے احوال کو دیکھ کر اس عارضی طریقہ پر رحم کی نالی بند کروانا تجویز کرے۔
2. مذکورہ عمل صرف خاتون ڈاکٹر ہی انجام دے۔
3. تمام مراحل (چیک اپ، ایکسرے، الٹراساؤنڈ، آپریشن، وغیرہ) میں شوہر کے علاوہ کسی نامحرم مرد کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔
4. نیز خاتون کے سامنے بھی بقدرِ ضرورت ستر کھولا جائے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے لیے نس بندی کا آپریشن کروانا تو جائز نہیں ہے، البتہ ماہر دین دار ڈاکٹر کی رائے کے مطابق اگر آئندہ حمل کی صورت میں آپ کو جان کا خطرہ لاحق ہونے یا بیماری کی وجہ سے سخت تکلیف کا قوی اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں مندرجہ بالا شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے رحم کی نالی کو عارضی طور پر بند کیا جاسکتا ہے۔
سنن ابی داود میں ہے:
"عن معقل بن يسار رضي الله عنه، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال: إني أصبت امرأة ذات حسب و جمال، و أنها لا تلد، أ فاتزوجها؟ قال: لا، ثم أتاه الثانية فنهاه، ثم أتاه الثالثة، فقال: تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم."
(كتاب النكاح،باب في تزويج الأبكار، ج:3، ص:395، ط:دار الرسالة العالمية)
«بذل المجهود في حل سنن أبي داود» ميں هے:
"(وإنها لا تلِدُ) أي: عقيم، وكأنه علم ذلك بأنها كانت قبله عند أزواج فلم تلد، أو علم أنها لا تحيض، أو بأنها لم تنهد ثدياها (أَفَأَتَزَوَّجُها؟ قال: لا) أي: لا تتزوَّج. (ثم أتاه الثانيةَ فنهاه، ثم أتاه الثالثة، فقال: تزوَّجُوا الودُود)، أي التي تحب زوجها محبة شديدة (الوَلُودَ)، أي كثيرة الولادة (فإنِّي مكاثرٌ)، أي مفاخر (بكم) أي بكثرتكم (الأمَمَ) أي الأممُ السابقةُ، أي: على أنبيائهم. وهذا يدل على أن النهي ما كانت للتحريم، بل كان مبنى النهي المكاثرة في الآخرة، وهي لا تقتضي التحريم. ومناسبة هذا الحديث بـ "باب تزويج الأبكار" بأن الغالب في الأبكار أن تكون ودودًا بخلاف الثيبات، وأما ما في بعض النُّسَخ من: "باب النهي عن تزويج من لم يلد"، فمناسبة الحديث به أيضًا ظاهرة."
(كتاب النكاح،باب في تزويج الأبكار، ج:7، ص:587، ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
" وعن سعد بن أبي وقاص - رضي الله عنه - قال: «رد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - على عثمان بن مظعون التبتل ولو أذن له لاختصينا» . متفق عليه.
(وعن سعد بن أبي وقاص رضي الله تعالى عنه، قال: «رد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - على عثمان بن مظعون التبتل» ) أي: الانقطاع عن النساء، وكان ذلك من شريعة النصارى، فنهى النبي - صلى الله عليه وسلم - عنه أمته ; ليكثر النسل ويدوم الجهاد. قال الراوي: (ولو أذن له) أي: لعثمان في ذلك (لاختصينا) أي: لجعل كل منا نفسه خصيا كيلا يحتاج إلى النساء. قال الطيبي: " كان من حق الظاهر أن يقال: لو أذن لتبتلنا، فعدل إلى قوله: اختصينا إرادة للمبالغة أي: لو أذن لبالغنا في التبتل حتى بالاختصاء، ولم يرد به حقيقة لأنه غير جائز. قال النووي - رحمه الله -: " كان ذلك ظنا منهم جواز الاختصاء، ولم يكن هذا الظن موافقا فإن الاختصاء في الآدمي حرام صغيرا أو كبيرا، وكذا يحرم خصاء كل حيوان لا يؤكل، وأما المأكول فيجوز في صغره ويحرم في كبره (متفق عليه)."
(کتاب النکاح،ج:5،ص:2042،ط:دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة نهر بحثا (بإذنها) لكن في الخانية أنه يباح في زماننا لفساده قال الكمال: فليعتبر عذرا مسقطا لإذنها، وقالوا يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج وفي الرد:(قوله قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطا لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح وبه جزم القهستاني أيضا حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء لفساد الزمان وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لا يبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان فافهم."
(کتاب النکاح ،مطلب فی حکم العزل ،ج:3،ص:176۔ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"وأما خصاء الآدمي فحرام قيل والفرس وقيدوه بالمنفعة وإلا فحرام."
(كتاب الحظر والاباحة،ج:6،ص:388، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100110
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن