(لطیف کوکینگ آئل ) کوکینگ آئل کے پیکیٹ پر لفظ ’’لطیف‘‘ لکھا ہوا ہے ، اس طرح کے پیکیٹ ،اوراق وغیرہ کو ڈسٹ بین میں پھینکنا کیسا ہے ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں میں سے ایک یہ بھی ہے ، اسی طرح کے اور بھی بے شمار نام ہوتے ہیں ، جو جگہ جگہ کچرے میں پڑے ہوۓملتے ہیں ، ان اوراق یا پیکیٹ کا کیا کیا جاۓ؟
’’لطیف کوکینگ آئل ‘‘ کے پیکیٹ اور اسی طرح دوسرے مقدس اوراق کوکوڑے دان میں ڈالنا جا ئز نہیں ہے ، بلکہ ان کے ساتھ مندرجہ ذیل تین طریقوں سے کوئی طریقہ اختیا ر کیا جائے :
۱۔ ان پیکٹ سے مقدس کلمات ( یعنی ، اللہ تعالی کانام یا رسو ل کا نام یا فرشتے کا نام یا ایسی طرح کوئی چیز ) مٹا نے کے بعد اس کو جلایا جائے ۔
۲۔ ان کو جاری پانی میں بہایا جائے ۔
۳۔ ان کو دفن کیا جائے ، اوریہ سب سے بہتر طریقہ ہے ۔
ملحوظ رہے : قرآن مجید جب تلاوت کرنے کا قابل نہ رہے تو اس کو پا ک کپڑے میں لیٹنے کے بعد ایسی جگہ دفن کیا جائے گا ، جہاں پر لوگوں کا آمد و رفت نہ ہو ، اس کے علاوہ باقی دو طریقے قرآن مجید کے بارے میں نہیں ہے ، بلکہ یہ صرف دیگر مقدس اوراق کے بارے میں ہے ۔
المقصد الأسنی فی شرح الأسماء الحسنی للغزالی میں ہے :
"اللطيف إنما يستحق هذا الاسم من يعلم دقائق المصالح وغوامضها ، وما دق منها وما لطف ، ثم يسلك في إيصالها إلى المستصلح سبيل الرفق دون العنف . فإذا اجتمع الرفق في الفعل واللطف في الإدراك تم معنى اللطف . ولا يتصور كمال ذلك في العلم والفعل إلا الله ، سبحانه وتعالى ..."
(الفن الثاني في المقاصد و الغايات، ص: 101، ط: دار ابن حزم )
فتاوی شامی میں ہے:
"المصحف إذا صار بحال لا يقرأ فيه يدفن كالمسلم ..."[و في رد المحتار : ]"(قوله: يدفن) أي يجعل في خرقة طاهرة ويدفن في محل غير ممتهن لا يوطأ. وفي الذخيرة وينبغي أن يلحد له ولا يشق له؛ لأنه يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف بحيث لا يصل التراب إليه فهو حسن أيضا اهـ.وأما غيره من الكتب فسيأتي في الحظر والإباحة أنه يمحى عنها اسم الله تعالى وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن. اهـ."
(كتاب الطهارة، سنن الغسل، ج: 1، ص: 177، ط: سعيد)
وفيه أيضا:
"الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن كما في الأنبياء."
(كتاب الحظر و الإباحة، فصل في البيع، ج: 6، ص: 422، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603101692
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن