آتش بازی کا سامان (ماچس،ساؤنڈ بم،شوٹر اور پھل جھڑیاں وغیرہ )بیچنے کا کیا حکم ہے؟جائز ہے یا ناجائز؟
اس کی کمائی جو موجود ہے اس کا کیا حکم ہے؟اور جو کمائی استعمال ہوچکی ہے اس کا کیا حکم ہے؟
آتش بازی گناہ ہے، اس میں مال کا ضیاع، جان اور املاک کے نقصان کا اندیشہ اور غیر مسلم قوموں کی تہذیب اختیار کرنا ہے، اس کی تجارت ، گناہ کے کام میں مدد کرنا ہے، اور گناہ کے کام میں تعاون کرنا جائز نہیں ہے، لہذا آتش بازی کے سامان کی تجارت جائز نہیں اور اس کی آمدنی بھی حلال طیب نہیں ہے، اس سے قبل جو نفع ہوا ہو بہتر ہے کہ اسے صدقہ کردیا جائے۔
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:
"وما كان سببا لمحظور فهو محظور."
(كتاب الحظر والاباحة،ج6،ص350،ط؛سعيد)
وفیہ ایضاً:
"و الحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام لايحلّ له و يتصدّق به بنية صاحبه، و إن كان مالًا مختلطًا مجتمعًا من الحرام و لايعلم أربابه و لا شيئًا منه بعينه حلّ له حكمًا، و الأحسن ديانةً التنزه عنه."
( كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب فيمن ورث مالا حراما،ج5،ص99، ط: دار الفكر)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
"آتش بازی بنانا اور اس کی تجارت
سوال:آتش بازی بنانے والے کی آمدنی کیسی ہے،کیا آتش بازی بنانا گناہ ہے؟
الجواب حامداً ومصلیاً:
جی ہاں!گناہ ہے،مگر اس کی تجارت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مکروہ ہے۔فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔"
(باب البیع الباطل والفاسد والمکروہ،ج16،ص135،ط؛جمعیۃ پبلیکیشنز)
فقط واللہ واعلم
فتوی نمبر : 144609100042
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن