بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اولاد کے مال میں والدین کا کتنا حصہ بنتا ہے؟


سوال

کیا اولاد کے مال میں باپ کا حصہ ہے؟ کیا اولاد کا سارا مال ماں باپ کا ہوتا ہے یا کچھ مال میں ماں باپ کا حصہ ہوتا ہے؟

جواب

اولاد اور والدین کا مال الگ الگ ہوتا ہے ،اولاد کا مال اولاد کا اور والدین کا مال والدین کا ہوتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کامال بلااجازت استعمال کا حق نہیں ہوتا ہے البتہ اگر والدین محتاج ہوں تو ان کا نفقہ اولاد پر واجب ہوتا ہے اور اگر اولاد نفقہ ادا نہ کریں تو والدین کو اولاد سے پوچھے بغیر بھی ضرورت کے بقدر اولاد کا مال استعمال کرنا جائز ہے۔بہرحال دونوں کی ملکیت علیحدہ ہوتی ہے۔

 حاشیةالسندی علی سنن ابنِ ماجه میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله،أن رجلا قال يا رسول الله إن لي مالا وولدا وإن أبي يريد أن يجتاح مالي فقال أنت ومالك لأبيك.
وفي الخطابي يشبه أن يكون ذلك في النفقة عليه بأن يكون معذورا يحتاج إليه للنفقة كثيرا، وإلا يسعه فضل المال، والصرف من رأس المال يجتاح أصله ويأتي عليه فلم يعذره النبي صلى الله عليه وسلم ولم يرخص له في ترك النفقة وقال له: أنت ومالك لوالدك على معنى أنه إذا احتاج إلى مالك أخذ منه قدر الحاجة كما يأخذ من مال نفسه، فأما إذا أردنا به إباحة ماله حتى يجتاح ويأتي عليه لا على هذا."

(أبواب التجارات،باب ما للرجل من مال ولدہ،43/2،ط:دار الجیل بیروت)
فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144512100835

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں