بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کو برا بھلا کہنا


سوال

 اگر کسی شخص نے غصہ میں غیر ارادہ طور پر سہواً بیٹی کے بارے میں کہا: "اس سے تو بہتر تھاکہ مار  مارکے ٹکڑے کر دیتے یا اس سے تو بہتر تھاپیدا ہوتے ہی مار کے ٹکڑے کر دیتے " یا "اس سے تو وہ بہتر ہیں جو  پیدا ہوتے ہی مار کے ٹکڑےکر دیتے ہیں" ان میں سے ایک جملہ تھا اصل میں جملہ ٹھیک سے یاد نہیں تو کیا اب اس سے تجدید ایمان اور تجدید نکاح کی ضرورت ہے؟ 

جواب

اولاد اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت اور پھر بیٹیاں تو دونوں جہانوں میں رحمت خدا وندی کا ذریعہ ہے،اس لیے مذکورہ الفاظ کفر نہ سہی کفران نعمت (نعمت کی ناشکری) اور گناہ کا اظہار ضرور ہے،لہذا مذکورہ کلمات کے ادا کرنے پر توبہ استغفار کرلیں ،تاہم ایمان و نکاح کہ تجدید کی حاجت نہیں۔

تفسیرِ مدارک میں ہے:

"{وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا}." [الاسراء-11]

{وَيَدْعُ الإنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهُ بِالْخَيْرِ} أي ويدعو الله عند غضبه بالشر على نفسه وأهله وماله وولده كما يدعو لهم بالخير أو يطلب النفع العاجل وإن قل بالضرر الآجل وإن جل {وَكَانَ الإنسَانُ عَجُولاً} يتسرع إلى طلب كل ما يقع في قلبه ويخطر بباله لا يأتى فيه تأني المتبصر أو أريد بالإنسان الكافر وأنه يدعوه بالعذاب استهزاء ويستعجل به كما يدعو بالخير إذا مسته الشدة وكان الإنسان عجولاً يعني أن العذاب آتيه لا محالة فما هذا الاستعجال."

(تفسير النسفي ، مدارك التنزيل وحقائق التأويل، ج:2 ،ص: 248، الناشر: دار الكلم الطيب، بيروت)

یعنی انسان جس طرح جلدی سے بھلائی مانگتا ہے اسی طرح برائی مانگتا ہے، تکلیف کے موقع پر ناراض ہو کر اپنے نفس اور اہل و عیال اور مال و اولاد  کے لیے بد دعا کرتا ہے، جیسا کہ ان  کے لیے خیر کی دعا کرتا ہے۔ نیز  جلد  ملنے  والے نفع کا طالب ہے،  اگرچہ وہ نفع قلیل مقدار میں ہو، اس نقصان کے بدلے میں جو بدیر آنے والا ہو؛ اگرچہ وہ کتنا ہی بڑا ہو۔ اور انسان جلد باز پیدا ہوا ہے، ہر وہ چیز جو اس کے دل میں آتی ہے، اس کو جلد طلب کرتا ہے، صابر شخص کی طرح انتظار نہیں کرتا۔ 

حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن مسعود - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سِباب المؤمن فسوق، وقتاله كُفر. متفق عليه."

(مشكاة المصابيح: كتاب الآداب  ، باب حفظ اللسان،  الفصل الأول، ٣ / ١٣٥٦، ط: المكتب الاسلامي- بيروت)

ترجمہ:" حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایہ کہ:مؤمن کا گالی دینا فسق ہے اور اسکا قتل کرنا کفر  ہے ۔"

حدیث میں ارشاد فرمایا:

"فقال: لا تدعوا على أنفسكم إلا بخير، فإن الملائكة يؤمنون على ما تقولون."

(سنن أبي داود ، ج:3، ص:191، بَابُ تَغْمِيضِ الْمَيِّتِ، كِتَاب الْجَنَائِزِ، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

ترجمہ:"اپنے اوپر دعا نہ کرو مگر خیر کی، اس  لیے فرشتے تمہاری دعا پر آمین کہتے ہیں"۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100850

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں