بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیٹے کو ہبہ کرنے بعد رجوع کا حکم


سوال

ایک آدمی کو اس کی والدہ نے کہا کہ یہ دو پلاٹ میں نے آپ کو دیے اور ان دونوں پلاٹوں پر قبضہ بھی دے دیا تھا، جس پر بیٹے نے تعمیر بھی شروع کردی تھی، نیز اس عورت نے اپنے بیٹے کو کئی دفعہ یہ کہا تھا کہ کاغذ لے آؤ، میں انگوٹھا لگادوں کہ پلاٹ آپ کے ہیں، اس عورت نے اپنے بھائیوں سے یہ بھی کہا کہ ان پلاٹوں سے کسی کا کوئی واسطہ نہیں، یہ صرف میرے بیٹے کے ہیں۔

اب کئی سالوں کے بعد چند لوگوں کے اکسانے پر اس عورت نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میرے پلاٹ مجھے واپس کرو، جب کہ اس کا بیٹا ان پلاٹوں پر لاکھوں روپے کا خرچہ کر چکا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس عورت کا بیٹا ان پلاٹوں کا مالک رہا یا نہیں؟ اگر ان پلاٹوں کا مالک نہیں رہا تو جو ان پلاٹوں پر خرچہ کیا ہے، وہ وصول کرسکتا ہے یا نہیں؟ واضح رہے کہ یہ دونوں پلاٹ بالکل خالی تھے اور بیٹے نے اس پر تعمیرات کے سلسلہ میں کافی اخراجات کیے ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ عورت نے یہ دو پلاٹ مالکانہ قبضہ واختیار سے ساتھ اپنے بیٹے کو دے دیے تھے تو یہ پلاٹ اس عورت کی ملکیت سے نکل کر اس کے بیٹے کی ملکیت میں آگئے تھے، چوں کہ بیٹا ذی رحم محرم ہے اور ذی رحم محرم کو ہبہ کرنے کےبعد شرعاً رجوع نہیں ہوسکتا، لہذا مذکورہ عورت اپنے بیٹے سے یہ پلاٹ واپس نہیں لے سکتی اور یہ بدستور بیٹے کی ملکیت شمار ہوں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."

"(قوله: بالقبض) فيشترط القبض قبل الموت."

(كتاب الهبة، ج:5، ص:590، ط: ايچ ايم سعيد)

بدا  ئع الصنائع میں ہے:

"أما أصل الحكم فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض لأن الهبة تمليك العين من غير عوض فكان حكمها ملك الموهوب من غير عوض."

(كتاب الهبة، فصل في حكم الهبة، ج:6، ص:127، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يرجع في الهبة من المحارم بالقرابة كالآباء والأمهات، وإن علوا والأولاد، وإن سفلوا."

(کتاب الھبة، الباب الخامس في الرجوع في الھبة، ج:4، ص:387، ط: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607101008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں